دنیا بھر میں ممالک اپنے شہریوں کو اپنے ملک میں نہ رہنے کے باجود مکمل قانونی، معاشی اور معاشرتی تحفظ اور عزت فراہم کرتے ہیں۔ سماجی طور پر بھی انہیں اپنے ملک کے لیئے ذر مبادلہ بھیجنے کی صورت میں عزت اور تحفظ دیا جاتا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پہلے تو ہر حکومت چیخ چیخ کر رو رو کر تارکین وطن کو مجبور کرتی ہے کہ آو ہماری اپنی ایئر لائن میں سفر کرو تاکہ ہمیں ایئر لائن چلانے کے لیئے پیسہ مل سکے۔<!–
اچھا جی کر لیا سفر ، نتیجہ پھٹے پرانے ناقص اورناقابل اعتبار جہازوں میں سفر بھی کر لیا۔ یہ سوچ کر کہ زندگی رہی تو پہنچ ہی جائیں گے ، آیت الکرسی اور درود پاک کا ورد کرتے کرتے سفر بھی مکمل کر ہی لیا ، اب ایئر پورٹ پر اپنی جھنڈ منڈوانے کو تیار ہو جائیں۔ جو بھی افسر جس موڈ میں بیٹھا ہو گا وہ آپکے ساتھ ویسا ہی معاملہ کریگا ۔ آپ کتنے سال کے بعد اپنے ملک کا سفر کر رہے ہیں ؟ آپ کو کیا کیا سامان یا الیکٹرانکس ڈیوٹی فری میں لیجانے کی اجازت ہے؟ اس کی کوئی واضح ہدایات متروک ہیں ۔
اپنے ملک میں کاروبار کرو ۔۔۔
اچھا جی ساری جمع پونجی لا کر وطن کی محبت میں یہاں لگا دی ۔۔۔ لیکن یہ کیا کاروبار تو بعد میں شروع ہو گا پہلے اس کے پرمٹ اور اجازت نامے جاری کرنے والے ایک ایک افسر سے لیکر منشی تک کو بھتہ اور رشوت بانٹیئے تب ہی آپ کی فائل کو پہیئے لگیں گے ۔ نہیں تو یاد رکھیں بیٹھ کر کھانے سے تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہو جائے گا ۔ کسی طرح سے یہ معاملہ بھی نپٹ گیا تو کاروبار شروع کرنے کیساتھ ہی آپ پر ایسے ایسے اور اتنے اتنے ٹیکسز کی بھرمار ہو جائیگی کہ آپکو لگے گا آپ اس ملک میں کاروبار کرنے نہیں آئے شاید کوئی جرم کرنے آئے تھے جس کی آپکو بھرپور سزا دی جا رہی ہے ۔ اس سے بھی نکل گئے تو کاروبار کے لیئے جن ملازمین اور سٹاف کی ضرورت ہو گی وہ کتنا ایماندار ، سچا اور مددگار ہے اس کی گارنٹی کون دیگا ؟ جس پر بھی رتی بھر بھروسہ کرینگے وہ آپ کی پیٹھ پر لات مارنے کے لیئے سوچنے میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کریگا ۔
اپنے ملک میں گھر خریدو ۔۔۔
چلو جی گھر بھی خرید لیا ۔۔۔ اب آپ مستقل تو پاکستان میں سارے خاندان کو لیکرمنتقل نہیں ہو سکتے ۔ سو واپس بھی جانا ہے ، اب گھر کا کیا کریں ؟ گھر کرائے پر دیدیں تو معلوم ہو گا کہ گھر کے کرائے دار ہی گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں ، کرایہ خون تھکوا تھکوا کر ہزار فساد کے بعد بھی وقت پر نہیں مل رہا ۔ اور خالی کروائیں تو گھر کو خوب تباہ کر کے جانا انکا پہلا کام ہوگا۔ اب قانونی طور پر آپ باہر بیٹھ کر اپنے گھر کی حفاظت اور توڑ پھوڑ کا کلیم کس پر اور کیسے کال کریں گے ؟ غلطی سے عدالت میں چلے گئے تو سالہا سال تک پیشیاں ہی بھگتتے رہیں ۔
اگر گھر کسی رشتے دار کی نگرانی میں دیدیا ہے تو آپکے جہاز تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ اس گھر کا مالک بننے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیگا ۔ سارے رشتے ، اعتبار ، لحاظ ایک ہی قبر میں دفن کرنا اس کا پہلا کام ہو گا ۔ آپ کی جائیداد بھی گئی، مال بھی گیا ، اعتبار بھی گیا ، اور تو اور وہ رشتہ بھی گیا ۔ تارکین وطن کے لیئے پاکستان میں نہ تو کوئی قانونی تحفظ موجود ہے اور نہ ہی کوئی بنیادی حفاظت ۔
پاکستان میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تارکین وطن کے لیئے خصوصی اور فوری عملدرامد کرنے والے قوانین بنائے جائیں ۔ ان کے لیئے الگ سے کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے جسے تارکین وطن کورٹس کا نام دیا جائے ۔ جس میں تارکین وطن کی اپنے ملک میں وراثت ، کاروباری اشتراک ، جائیدادوں ، کرایہ داریوں کے مسائل پر خصوصی اور فوری قانونی امداد فراہم کی جائے جس کا فیصلہ ہونے تک کا دورانیہ تین سے چھ ماہ تک کا ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ اس سے زیادہ کا قیام ایک وقت میں ان کے لیئے ممکن نہیں ہوتا ۔ اورجسے وہ پیروی کی ذمہ داری دیتے وہ کتنا مخلص ہو گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔
گھروں اور جائیدادوں پر دی جانے والی فل اٹارنی (مختار نامہ عام ) کو فی الفور یا تو ختم کیا جائے یا اس پر مالکانہ اختیارات کو بلاک کیا جائے ۔ کیونکہ اکثر گھروں، جائیدادوں اور کاروبار پر انہیں عام مختار ناموں کی صورت ہی قبضے ہو رہے ہیں ۔ مجسٹریٹ کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ کسی بھی اٹارنی پر اس کے مالک کی غیر موجودگی میں ملکیت کا اختیار استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیئے ۔ تارکین وطن کی گاڑھے خون پسینے کی کمائی کو محض ایک مختارنامہ عام کے سٹامپ پر ایسے قبضہ گیروں اور حرام خوروں پر (جو کہ اکثر انکے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں ) شکنجہ کسا جانا چاہیئے ۔ جو ایک قانونی آسانی کو اپنے ہی رشتہ داروں کو لوٹنے کے لیئے عذاب بنا دیتے ہیں ۔
ان نکات پر فوری غور کیا جانا چاہیئے ۔ کیونکہ انہیں مسائل کی وجہ سے تارکین وطن اب پاکستان میں کہیں بھی پیسہ لگانے سے پیچھے ہٹنے لگے ہیں ۔ انہیں قانونی تحفظ فراہم کیجیئے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو۔