عمران حکومت پر پچھلے سولہ ماہ میں سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ یہ حکومت یوٹرن پہ یوٹرن لے رہی ہے۔ اپوزیشن کے لوگ یہ بات بڑے چسکے لے لے کر کہتے رہے ہیں اور کہتے پھر رہے ہیں اور اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ یوٹرن لئے گئے ہیں اور بدستور لیے جا رہے ہیں۔ یو ٹرن جب معمول کا حصہ بن گئے تو خود عمران نے بھی کہ دیا ہے کہ اگر بہتری کی بات ہو تو یوٹرن لینے میں کوئی حرج نہیں۔
یہ بات مان لینے میں کوئی مسئلہ نہیں کہ اگر جھوٹ بولنے سے کسی کا فائدہ ہوجائے تو وہ جھوٹ سچ سے بہتر ہوجاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یوٹرن لینے سے بہتری ہوئی ہے تو وہ بہتری کہاں جا کے پردہ نشین ہوگئی ہے گھونگھٹ میں لپٹی یہ بہتری منہ کب دکھائے گی کیا ایسا تو نہیں کہ اس بہتری کو دیکھنے کے لئے منہ دکھائی بھی دینا پڑے گی۔
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس یا معمول کی کارروائی میں انگریزی کے مشکل مشکل الفاظ بولے جاتے ہیں دریا راوی کے کنارے بیٹھے ننگ دھڑنگ مستری موچی نائی کے کسی کام کے نہیں۔ وہ تو صبح اٹھ کر یہی پوچھتا ہے کیا آٹا سستا ہوا چینی نیچے آئی ،گھی کا بھاؤ گھٹا، دال نے تیور بدلے،بجلی کا غصہ کم ہوا، بسوں کے کرائے آسمان سے اترے، خان صاحب یوٹرن جتنے مرضی لو لیکن بنی گالہ کے محل اور اسمبلی کی دلفریب عمارت سے نکل کر ان غرباء کا بھی حال پوچھ لو جو روزانہ جیتے ہیں روزانہ مرتے ہیں جو ہر روز یہ سوچ کر سو جاتے ہیں کہ شاید کل کا دن بہتر ہو جائے۔
اگر نواز زرداری کو جیلوں میں ڈالنے سے ملک نے سنورنا تھا تو وہ سنورنا کہاں ہیں اگر منی لانڈرنگ کا پیسہ واپس لانے سے ملک کی تقدیر بدلنا تھی تو تبدیلی کہاں ہے اگر ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرکے خوشحالی کا دور لانا تھا تو وہ خوشحالی کہاں ہیں۔
تاریخ پہ تاریخ تو ایک لطیفہ بن چکا تھا یہ لطیفہ آپ دس بار سنا چکے اور عوام سن بھی چکے لیکن اچھا وقت نہیں آیا اب تو عوامی گوڈے گٹے بھی جواب دیتے نظر آرہے ہیں صبح سے شام تک ایڑیاں رگڑنے والا مزدور دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہے اگر تبدیلی تباہی کا سبب بن رہی ہے تو اس تبدیلی کی ضرورت کیا تھی لوگ بے موت مر رہے ہیں بڑے بڑے پھنیخان سر پکڑ کر رہ گئے ہیں۔
مہنگائی نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے جہاں اتنے یوٹرن لئے ہیں ایک یوٹرن مہنگائی پہ بھی لے لیں ہو سکتا ہے تجربہ کامیاب ہوجائے اور کچھ بہتری آجائے تبدیلی آجائے نیا پاکستان بن جائے۔