اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پرویز مشرف کیس میں سزا سنانے والی عدالت کی تشکیل غیر قانونی قرار دیے جانے کے فیصلے کو ان کے حامی اور مخالف اپنے اپنے انداز میں دیکھ رہے ہیں لیکن عمومی تاثر یہی ہے پرویز مشرف کو سزا ملنے کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔
قانون کے مطابق اس فیصلے کے خلاف صرف حکومت ہی اپیل کر سکتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اور پرویز مشرف کے وکلاء کے اس کیس میں ایک ہی صفحے پر ہونے کی وجہ سے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے امکانات بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ عدالت عالیہ کی طرف سے یہ فیصلہ پیر 13 جنوری کو پرویز مشرف کی جانب سے دی گئی اس درخواست پر سنایا گیا، جس میں انہیں سزا سنانے والی خصوصی عدالت کے قیام کو چیلنج کیا گیا تھا۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے وکلاء کے مطابق اس فیصلے کے بعد خصوصی عدالت کی تمام کارروائی بھی کالعدم ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں سنائی گئی سزا بھی ختم ہو گئی ہے۔ دوسری طرف نامور وکیل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ عدالت نے تیکنیکی بنیادوں پر فیصلہ سنانے والی عدالت کی تشکیل کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ پرویز مشرف نے اپنے جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔
جسٹس مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے سلسلے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے اور عدالت کی تشکیل اور نہ ہی مقدمے کے اندراج کے لیے مجاز اتھارٹی سے منظوری لی گئی۔
پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے لیے یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ ان کے بقول عملی طور پر اب یہ کیس مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے،کیونکہ کوئی متاثرہ فریق باقی نہیں بچا ہے، پاکستان میں زمینی حقائق یہی ہیں اور پیپلز پارٹی اور نون لیگ جیسی جماعتیں بھی اس حقیقت کو اب تسلیم کر چکی ہیں: ”اب سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ مستقبل میں آئین کے آرٹیکل چھ پر کس طرح عملدرآمد کرانا ممکن ہو سکے گا کیونکہ سارے اختیارات لے کر اگر ایک آمر اپنا نام چیف ایگزیکٹو رکھ لے تو قانونی موشگافیوں سے اس کے لیے راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ آئین کو معطل کیے بغیر بھی سارے اختیارات لے کر سب کچھ کنٹرول کیا جا سکتا ہے ، اس پر آئین کا آرٹیکل چھ کیا کرے گا۔‘‘
نوید چوہدری کہتے ہیں کہ پرویز مشرف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہی ملک سے باہر ہیں: ”انہیں اس لیے باہر رکھا گیا تھا تاکہ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے یہاں متنازعہ سوالات نہ اٹھائے جا سکیں۔ اور غالب امکان یہی ہے کہ ان کے خلاف اکبر بگٹی سمیت دیگر مقدمات میں بھی ان کو سزا نہیں مل سکے گی۔‘‘
ایک اور تجزیہ نگار سلمان عابد کی رائے کچھ مختلف ہے۔ ان کے خیال میں مشرف کو سزا سنانے والے فیصلے میں کئی سقم تھے اور خاص طور پر پیرا چھیاسٹھ پر بڑی تنقید سامنے آئی تھی: ”وہ فیصلہ بھی عدالت کا تھا جس پر عدالتوں کی آزادی کے نعرے لگائے گئے تھے اور اب یہ فیصلہ بھی تو عدالت کا ہی ہے۔ اس کو ماننے میں تامل کیوں ہے؟‘‘
ان کے بقول ہمیں اپنی مرضی کے فیصلوں کی توقع رکھنے کی بجائے قانونی پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے: ”ان فیصلوں کو سیاسی آنکھ سے دیکھنے کی بجائے قانونی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قانون یہ کہتا ہے کہ آرٹیکل چھ صرف ایک بندے پر لاگو نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں تعاون کرنے والے تمام افراد کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں سلمان عابد کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے تقویت پانے والی اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں جمہوریت کو بالا دستی دینے کے لیے جمہوری سیاست دانوں کو غیر معمولی کارکردگی دکھانا ہو گی: ”یہ پاکستان کی زمینی حقیقت ہے، اگر سیاست دان سمجھوتے کر کے چھوٹتے رہیں گے تو پھو آمروں کے خلاف کارروائی کی توقع بھی نہیں رکھی جانی چاہیے۔‘‘