زندگی کے سبھی رشتے ناطے give and take (دیں اور لیں) کے زریں اصول پر مبنی اور استوار کھڑے ہیں یہاں کوئی بھی رشتہ یکطرفہ اور مفت میں نہیں ہے حتی کہ قدرت بھی اگر انسان کو دانائی عطا کر کے اسے اشرف المخلوق کا خطاب عطا کرتی ہے تو بدلے میں بجا طور پر اس سے اپنی فرمانبرداری کے علاوہ خدمت انسانیت کی توقع رکھتی ہے بالکل اسی طرح ہی اگر والدین اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنے بچوں کو شہزادوں کی طرح پالتے پوستے ہیں تو بڑھاپے میں وہی والدین اپنے بچوں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ انھیں بادشاہوں کی طرح رکھا جائے اسی طرح استادِ اپنے شاگردوں سے، دوست اپنے دوستوں سے، رہنما اپنے پیروکاروں سے، مالک اپنے ملازم سے، خاوند اور بیوی ایک دوسرے سے، ہر سائل متعلقہ افسر سے اور عوام اپنے لیڈر سے الغرض ہر رشتہ دوسرے رشتے سے کچھ نہ کچھ توقعات رکھتا ہے جنھیں پورا کر کے اس دنیا کو جنت کا عملی نمونہ بنایا جا سکتا ہے۔
انہی انمول اور نادر رشتوں میں ایک رشتہ والد کا بھی ہوتا ہے جو اپنی اولاد کے لیے اپنی اوقات سے بڑھ کر دکھ اٹھاتا ہے پر آسائش زندگی گذرانے والا بھی جب برے حالات کا شکار ہوجاتا ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ پھر بھی بغیر کچھ کیے کرائے اسے روٹی ملتی رہے مگر جب وہ شخص جس نے زندگی بھر ایک تنکا بھی نہ توڑا ہو تو وہی شخص اپنے بچوں کی خوشی کے لیے مزدور بن کر دیہاڑیاں بھی کرتا ہے خاکروب بن کر جھاڑو بھی دیتا ہے اور نہ جانے کیا کیا کام کرنے کو تیار ہوجاتا ہے اور پھر بعض اوقات بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری نہ کرسکنے پر اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلیتا ہے۔
اسی طرح ماں جسکا دنیا میں کوئی نعمل البدل نہیں یہاں تک کہ سگے رشتہ دار خالہ،ماموں،چچا یہاں تک کہ نانا،نانی اور دادا دادی بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں مگر ماں باپ اپنی اولاد کو کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے اسکے لیے انہیں کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینا پڑے والدین کی ان قربانیوں کا مقصدمیں سمجھتا ہوں کہ صرف اتنا سا ہے کہ کل کو جب انکے بچے بڑے ہو ں تو انکے اخلاق،کردار اور انکے رویوں کو دیکھ کر کوئی انہیں برا بھلا نہ کہے کوئی انہیں ماں اور بہن کی گالی نہ دے بلکہ اس شخص کے پیار، محبت، اخلاص، ہمدردی اور میٹھے بول کے پیچھے اسکے والدین کھڑے نظر آئیں اور پھر جیسے جیسے انسان بڑا ہوتا جاتا ہے تو اسکی شخصیت میں سے اسکے والدین کی جھلک نظر آنا شروع ہوجاتی ہے اور آج ہم جو کچھ بھی ہیں وہ والدین کی تربیت کی ہی بدولت ہیں ہمارا اخلاق،کردار اور ہمارے رویوں میں والد یا والدہ دونوں میں سے کسی ایک کی جھلک واضح دیکھی جاسکتی ہے۔
آج میں جب اپنے دوستوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے رویوں اور کردار کے پیچھے انکے والدین کی جھلک نظر آتی ہے کیونکہ انکے بات کرنے کا انداز،انکا اخلاق اور پھر انکا اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ رویہ اس بات کا شاہد ہے کہ انکی اس تربیت کے پیچھے انکے والدین کا کمال ہے بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ انکے اوپر سے مصیبتوں کا پہاڑ بھی گذر جائے تو وہ ایک پل کے لیے بھی پریشان ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کو کرتے ہیں ایسے افراد ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور خاص کر جنہیں کسی اہم ذمہ داری پر بٹھا دیا جائے تو پھر بھی ان میں غرور اور تکبر نہ آئے تو ایسے افراد کے نقش قدم پر چلنا چاہیے اور ایسے ہیروں کو انسان اپنی زندگی کی لڑی میں پروتا چلا جائے اور پھر ایک ایسی خوشبو سے مہکتی ہوئی مالا بن جائیگی کہ جواس انسان کوتو معطر رکھے گی ہی مگر اس کے ارد گرد رہنے والے دوست ہونگے وہ بھی اس خوشبو سے فیض یاب ہوتے رہیں گے اور ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے جن سے انسان ایک بار مل لے تو پھر بار بار ملنے کی خلش دل میں رہتی ہے ایسے ہی خوبصورت انسانوں میں طاہر رضا ہمدانی،ثاقب علیم،طاہر انوار پاشا، راجہ جہانگیر انور،شفقت اللہ مشتاق،ڈاکٹراسلم ڈوگر،ڈاکٹرصغراں صدف،سید نوید بخاری،علی عمار،شفقت حسین بھی شامل ہیں یہ ایسے خوبصورت انسان ہیں کہ جنکے ساتھ بیٹھ کر کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقعہ ملتا ہے۔
ابھی گذشتہ اتوار مجھے پیر محل شفقت اللہ مشتاق کی والدہ کے ختم شریف میں جانے کا موقعہ ملا تو وہاں پر میں نے ایسے خشک مزاج افراد کو بھی دیکھا جو عام زندگی میں بھی کسی سے ہنس کر نہیں ملتے مگر وہ بھی شفقت اللہ مشتاق کے گرویدہ نکلے شفقت اللہ مشتاق اس وقت ساہیوال میں ریجنل دائریکٹر انٹی کرپشن کام کررہے ہیں جیسا انکا محکمہ ہے ویسے ہی اس اداے میں لوگ ہوتے ہیں مگر انہوں نے اس محکمہ کو بھی اپنے جیسا انسان دوست بنا رکھا ہے جو ان سے ایک بار مل لیتا ہے وہ پھر کسی اور دوست کی تمنا ہی نہیں کرتا کیونکہ وہ اندر سے خوبصورت انسان ہیں اور رہی سہی کسر انکی شاعری نے پوری کررکھی ہے ایسے افراد انسانوں کی زندگی میں سرمایہ افتخار اور انکے والدین جنتی ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی ان سے پیار کرتے ہیں جو اللہ کے انسانوں سے پیارکرتے ہیں اور یہ سبھی لوگ انسانوں سے پیارکرنے والے ہیں اور ان سب کے چہروں پر انکے والدین کا عکس ہی نطر آتا ہے دنیا میں اللہ تعالی کے بعد والدین ہی وہ ہستی ہیں جنکے سامنے انسان اپنا دکھ اور درد بیان کرسکتا یا ایسے دوست جنکے اندر اپنایت اور خلوص ہو آخر میں نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف کا ایک خوبصورت کلام جو اپنے تمام دوستوں کی نظر کرتا ہوں۔
سنے کون قصہ دردِ دل میرا غمگسار چلا گیا جسے آشناؤں کا پاس تھا،وہ وفا شعار چلا گیا وہی بزم ہے وہی دھوم ہے،وہی عاشقوں کا ہجوم ہے ہے کمی تو بس میرے چاند کی،جو تہہ مزار چلا گیا وہ سخن شناس وہ دور بیں، وہ گدا نواز وہ مہ جبیں وہ حسیں وہ بحر ِعلوم دیں، میرا تاجدار چلا گیا کہاں اب سخن میں وہ گرمیاں کہ نہیں رہا کوئی قدرداں کہاں اب وہ شوق میں مستیاں کہ وہ پر وقار چلا گیا جسے میں سناتا تھا دردِ دل وہ جو پوچھتا تھا غمِ دروں وہ گدا نواز بچھڑ گیا،وہ عطا شعار چلا گیا بہیں کیوں نصیر نہ اشکِ غم،رہے کیوں نہ لب پر میرے فغاں ہمیں بیقرار وہ چھوڑ کر سر راہ گزار چلا گیا۔