کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان شوبزانڈسٹری کی نامورفنکارہ بشریٰ انصاری نے بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات پرکہا ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے دینی مدارس اور مولویوں کے کمروں میں کیمرے لگائے جائیں۔
اداکارہ بشریٰ انصاری کی ایک ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں وہ مدرسوں میں پڑھنے والے معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات اوراسکولوں میں طالبعلموں کے ساتھ اساتذہ کے بہیمانہ سلوک پرنہ صرف بات کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں بلکہ انہوں نے ان واقعات کی روک تھام کے لیے مسئلے کا حل بھی پیش کیا ہے۔
بشریٰ انصاری نے کہا دینی مدارس میں تنہائی کا ماحول زیادہ ہوتا ہے، مسجد اور مدرسہ ہونے کے باعث تعظیم کی وجہ سے وہاں شورنہیں ہوتا، زیادہ لوگ نہیں ہوتے اورمخصوص ماحول ہوتا ہے لہذٰا وہاں ان لوگوں کوموقع مل جاتا ہے۔ اسلیے ہرمدرسے اورہر مولوی کے کمرے میں کیمرے لگائیں۔ اس کے علاوہ اسکول میں موجود اساتذہ جو طالبعلموں پرتشدد کرتے ہیں، انہیں مختلف طرح سے اذیتیں دیتے ہیں انہیں تھپڑوں سے، لکڑی سے مارتے ہیں الٹا ٹانگ دیتے ہیں ان اسکولوں میں بھی کیمرے لگائے جانے چاہیئں تاکہ اس طرح کے لوگوں پرنظر رکھی جاسکے۔
بشریٰ انصاری نے کہا کمزوراورجابرکا رشتہ بہت پرانا ہے جہاں کسی کے پاس کوئی اختیارآجاتا ہے وہ اپنی ساری فرسٹریشن بیچارے مظلوم پرنکالتا ہے پھر چاہے وہ کوئی عورت ہو، اس کی بیوی ہویا پھر کوئی طالبعلم ہو۔
بشریٰ انصاری نے مزید کہا کہ آبادی میں اضافے کی وجہ بھی ان واقعات میں اضافے کا ایک سبب ہے ۔ زیادہ بچے لوگوں سے سنبھالے نہیں جاتے اور والدین اپنے بچوں پر پوری طرح نظرنہیں رکھ پاتے، کچھ لوگ تو صرف اس لیے اپنے بچوں کو مدرسے میں ڈال دیتے ہیں کہ وہاں انہیں کھانا بھی ملے گا، قرآنی تعلیم بھی ملے گی اوریہ بچے ہمیں جنت میں بھی لے جائیں گے لیکن دراصل قرآنی تعلیم کی ضرورت ان والدین کو ہے آپ خود قرآن پڑھیے اورترجمے سے سمجھئے اورپھر اپنے بچوں کو خود قرآن پڑھائیں لیکن جن کے 12، 14 بچے ہوں گے وہ کہاں پڑھائیں گے ان کے لیے تو صبح سے شام اتنے بچوں کے ساتھ کام مشکل ہوجاتا ہے
اداکارہ بشریٰ انصاری نے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے درندوں کو سزائے موت دینے کی بات پرکہا کہ ایسے درندوں کو فوراً سزائے موت نہیں دینی چاہیئے بلکہ رفتہ رفتہ دینی چاہیئے۔ سزائے موت دینے سے پہلے ان لوگوں کواتنی تکلیف اور ذہنی اذیت دیں جتنی انہوں نے بچوں کوتکلیف اورذہنی اذیت دی ہے۔ تو شاید اس طرح لوگوں میں خوف پیدا ہوگا اوروہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے سے پہلے سوچیں گے کہ اگر ہم نے یہ مکروح فعل کیا تو ہمارے ساتھ بھی یہی سب ہوگا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ ہمارے قانون میں یہ سزا قابل قبول ہے یا نہیں لیکن اصولاً تو یہی ہونا چاہیئے۔
بشریٰ انصاری نے زیادتی جیسے قبیح فعل کے لیے ملک میں رائج قوانین میں ترامیم کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان قوانین میں حالات کے حساب سے تبدیلی ہونی چاہیئے۔