نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی تہاڑ جیل کا پبلک ریلیشن آفیسر کشمیری شہری افضل گورو کے ذکر پر جذباتی ہوکر رو پڑا۔
خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے افضل گورو کو 13 دسمبر 2001 کو بھارت کی پارلیمنٹ پر حملے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں بھارت کی خصوصی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پھانسی کے خلاف افضل گرو کی درخواست اوربھارتی صدر کی جانب سے رحم کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد 9 فروری 2013 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں انہیں پھانسی دے دی گئی تھی۔
افضل گورو کی پھانسی کی سزا کے خلاف مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں کشمیریوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا جب کہ 9 فروری کو ہر سال افضل گورو کی برسی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کیا جاتا ہے۔
پھانسی کے وقت افضل گورو کی عمر 44 برس تھی، انہیں نہ توٹھیک طرح قانونی پیروی کا موقع دیا گیا اور نہ ہی پھانسی سے قبل اہلخانہ سے ان کی ملاقات کروائی گئی۔
بھارتی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تہاڑ جیل کے پبلک ریلیشن افسر سنیل گپتا نے بتایا کہ جب انہوں نے پھانسی کی اطلاع افضل گورو کو دی تو اس نے کہا تھا کہ اسے معلوم ہے۔
سنیل گپتا کے مطابق افضل گورو کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے بلکہ اسے کرپشن کے خلاف لڑنے پر کرپٹ لوگوں نے دہشت گرد بنادیا۔
بھارتی جیل کے اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ افضل گرو پھانسی سے قبل نہایت مطمئن نظر آرہا تھا۔
واضح رہے کہ سنیل گپتا جنہوں نے تہاڑ جیل میں 35 سال فرائض سرانجام دینے کے بعد تہاڑ جیل پر بلیک وارنٹ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، ان کےانٹرویو سے بھارتی میڈیا میں بھونچال آ گیا ہے۔
اس حوالے سے بھارت میں ایک بار پھر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا بھارتی حکومت نے ایک معصوم اور بے گناہ شخص کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا؟
ایک بھارتی ٹی وی اینکر کا کہنا تھا کہ ایک جیل افسر کسی دہشت گرد کے بارے میں سوچ کر نہیں رو سکتا۔
2016 میں نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علموں نے افضل گورو کی پھانسی کی برسی پر احتجاجی مارچ کیا تھا اور اسے عدالتی تحویل میں قتل قرار دیا تھا۔
جس پر پولیس نے یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کنہیا کمار کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے گرفتار کرلیا تھا جس پر طلبہ کی جانب سے شدید احتجاج دیکھنے میں آیا تھا۔