اللہ رب رحمٰن نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا” اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آیاکرو۔تمہارے سامنے (ماں،باپ)دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اف” بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی مت اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجزو انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ تعالیٰ)سے عرض کرتے رہو، ہمارے اللہ،ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں ہمیں (رحمت و شفقت سے) پالا ”قرآن حکیم میں جہاں جہاں انبیاء کرام کاذکرآتاہے وہاں وہاں انبیاء کرام کے اوصاف بھی بیان کئے گئے ہیں جن میں والدین کی فرمابرداری اور خدمت مشترک ہے۔
اللہ سبحان تعالیٰ نے ایساکوئی نبی پیدانہیں فرمایاجووالدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آیاتویہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کویہ منظورہی نہیں کہ اس کاکوئی مقبول بندہ والدین کے ساتھ ناقص سلوک کرے۔اللہ رب العزت نے والدین کیلئے احسان کالفظ استعمال کرکے بالکل واضع کردیاہے کہ والدین کی فرمابرداری اورخدمت کیلئے کوئی حدمقررنہیں ہے’ احسان ‘یعنی حسن سلوک کی انتہائ۔مرشِدحضورعظیم روحانی پیشواپیرسیدعرفان احمدشاہ المعروف نانگامست سرکارکافرمان ہے” جس طرح حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ماں کی خدمت اورفرمابرداری کی اُس کی مثال نہیں ملتی اورپھراللہ سبحان تعالیٰ نے حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے فضل وکرم سے نوازااُس کی بھی کوئی حد نہیں،اللہ رحمٰن نے حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل کو اتناپسند فرمایاکہ اپنے محبوب نبی حضرت محمد ۖ کاعشق عطافرماکردنیاسے بیگانہ کردیا۔ماں کی خدمت اورفرمابرداری پرجومقام و مرتبہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پایااُس سے ثابت ہوتاہے کہ والدین کی خدمت اورفرمابرداری اللہ تعالیٰ کوبہت پسندہے۔مرشِدسرکاراپنے ماننے اورچاہنے والوں کوماں کے ہاتھ،پائوں اورباپ کے ہاتھ اورماتھاچومنے اوروالدین کی خدمت اورفرمابرداری کادرس فرماتے ہیں،آپ کافرمان ہے کہ ماں،باپ کی خدمت کمزورمقدربدل کرتمام مشکلات کوآسانیوں،تمام پریشانیوں کوخوشیوں میں بدلنے اورتمام بدحالیوں کوخوشحالیوں میں بدلنے والاعمل ہے”ایک بات ہم اکثرسوچتے ہیں کہ محدودوسائل میں والدین کی خدمت کیسے ممکن ہے؟والدین بوڑھے ہوچکے ہیں،اُن کی صحت اکثرخراب رہتی ہے،علاج معالجہ،ادویات بہت مہنگی ہیں اوربہت سارے مزید سوالات کے جوابات میں کچھ مزیدسوالات خودسے کریں تویقیناتسلی بخش جواب مل جائیں گے کہ والدین نے جب ہماری پرورش کی تھی تب ہماری کیاحیثیت تھی؟
پیدائش سے قبل ہم کہاں تھے ،کیاتھے اوراللہ تعالیٰ کے بعد کن کے رحم کرم پرتھے؟جب اس دنیامیں ننگے اورخالی ہاتھ واردہوئے تھے تب ہمارے مالی حالات کیسے تھے؟جب بھوک مٹانے کیلئے روتے تھے تب کبھی ماںیاباپ کے وسائل کومدنظررکھاتھا؟قبل ازپیدائش سے جوان ہونے تک والدین نے جووسائل ہم پرخرچ کئے کیااُن کی کوئی قدروقیمت نہیں؟والدین نے اپنی جوانی کے بہترین سال جوہم پرقربان کردیئے وہ اپنے بڑھاپے کومحفوظ بنانے پرخرچ کئے ہوتے توآج اُن کے پاس بڑامال ودولت ہوتا،بڑی جائیدادہوتی،بڑابینک بیلنس ہوتا،کوئی بڑاکاروبارہوتا۔یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اولادکی محبت اللہ تعالیٰ والدین کے دلوں میں ڈال دیتاہے جس طرح ہمیں اپنی اولاد سے پیارہے اورہم اپنے بچوں کیلئے سب کچھ قربان کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح ہمارے والدین نے اپناسب کچھ قربان کرکے ہماری پرورش کی ہوتی ہے ۔ایک اوربات یاد رکھنے کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کے وسائل خرچ نہیں کرناچاہتے،بوڑھے والدین اپنے بچوں کی مسکراہٹ دیکھ کرخوش ہوجاتے ہیں۔
والدین جب بوڑھے ہوجائیں توانہیں وقت ضروردیں۔انہیں یہ محسوس نہ ہونے دیں کہ آپ کواُن کی فکرنہیں تویقین جانے والدین بیماربھی نہیں ہوں گے۔مختصریہ کہ والدین تووالدین ہوتے ہیں ،امیرکے بھی،غریب کے بھی،شہنشاہ کے بھی فقیرکے بھی،صاحب ثروت کے بھی حقیرکے بھی۔والدین کی خدمت کرتے وقت یہ مت سوچیں کہ آپ کے وسائل کم ہیں،والدین کی خدمت وسائل سے ہوتی تودنیاکے امیرترین لوگ والدین کے بہترین خدمت گزارہوتے اورغریب اس نعمت اورنیکی سے محروم رہ جاتے۔قابل ذکربات کہ خدمت اورفرمابرداری کیلئے یہ شرط نہیں کہ والدین بورھے ہوں۔والدین کی خدمت و فرمابرداری عمر کے ہر حصے میں واجب ہے۔خاص طورپربڑھاپے کا ذکراس لئے آتاہے کہ بڑھاپے میں اکثرانسان چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور عقل و فہم بھی کم ہونے لگتی ہے۔کمزوری کے سبب خرابی صحت کا بھی سامنارہتاہے اس لئے بڑھاپے میں والدین اپنے بچوں کی زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔دین اسلام والدین کے ساتھ والدین کے متعلقین جن میں دادا،دادی، نانا،نانی،تایا،تائی،چچا،چچی،ماموں،ممانی،پھپھو،خالہ،خالوسمیت دیگررشتہ داروں کے علاوہ والدین کے دوستوں کے احترام کی بھی تلقین کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمرروایت کرتے ہیں کہ جناب رسول کریم ۖ نے فرمایا” تم اپنے والدین کے دوستوں کا احترام کرو گے تو یہ بلا واسطہ تمہارے والدین ہی کا احترام ہوگا(بخاری)اکثرلوگ والدین اوربزرگوں کی خدمت فقط حصول جنت یاحصول دنیاکی خاطرکرتے ہیں جبکہ والدین اپنے بچوں کی پرورش،تعلیم وتربیت بالکل بے لوث انتہائی محبت،شفقت اورلگن سے کرتے ہیں۔
والدین اپنے بچوں کی بہترپرورش،صحت،تعلیم وتربیت کیلئے بے شمارقربانیاں دیتے ہیں جنہیں گنواناممکن نہیں بس یہ سمجھ لیں کہ جب انسان والدین بن جائیں تو اُن کی تمام خواہشات اولادسے وابستہ ہوجاتی ہیں وہ اپنی ساری زندگی بچوں پرقربان کردیتے ہیں۔والدین تب بچوں پراپنی سہولیات،صحت سمیت تمام وسائل خوشی سے قربان کردیتے جب بچے اپنی کسی تکلیف کااظہارفقط روکرہی کرپاتے ہیں،غذا،لباس ،سردی،گرمی سمیت دنیاکے کسی مسئلے کامقابلہ کرپانابچوں کے بس میں نہیں ہوتاتب والدین رات دن اپنے بچوں کاخیال کرتے ہیں،رات رات بھرجاگ کراپنے بچوں کی ضروریات کاخیال رکھنے میں اپنے منہ کانوالہ تک خوشی سے قربان کردیتے ہیں،جب بچے تھوڑے بڑے ہوکرخواہشات کااظہارکرناشروع کرتے ہیں تووالدین کوپہلے سے سخت محنت کرناپڑتی ہے جووہ خوشی سے کرتے ہیں اورپھربچوں کے سنہرے مستقبل کیلئے تانے بانے بننے میں زندگی گزاردیتے ہیں جبکہ دوسری جانب بچے جب خودمختارہوتے ہیں تووالدین کی خدمت کرنایاکم ازکم خیال رکھناوالدین کی قربانیوں کے اعتراف اوراحسانات کے بدلے یاپھرفرط محبت سے نہیں بلکہ فقط نیکی سمجھ کرحصول جنت یاحصول دنیاکی خاطرکرتے ہیں،والدین اپنی خواہشات ہی نہیں بلکہ اپنی جائزضروریات کوترک کرکے سخت محنت سے جوسازوسامان بچوں کیلئے جمع کرتے ہیں بچوں کے خودمختار ہوتے ہی اسی سازوسامان پروالدین کاکوئی حق نہیں رہتا،بچے والدین کی فرمابرداری کی بجائے بڑی مشکل سے برداشت کرتے ہیں،اکثربوڑھے والدین الگ کمرے یاالگ گھرمیں رات دن بچوں کی ایک جھلک کے منتظررہتے ہیں اوردورحاضرکے خدمت گزاربچے والدین کیلئے لباس،غذا اورادویات کاانتظام کرکے سمجھتے ہیں کہ فرض اداہوگیاجبکہ والدین نہ صرف بچپن بلکہ ساری زندگی بچوں کے ایسے کام خوشی سے کرتے ہیں جوبچے خوداپنے لئے کرناپسندنہیں کرتے اوروہی بچے اپنے بچوں کے سارے کام خوشی سے کرتے ہیں یعنی اولادسب کوپیاری ہوتی ہے۔