ایک وقت تھا جب اْردو زبان درباری زبان یعنی بادشاہوں کی زبان تھی ہر کوئی بغیر رنگ و نسل اور مذہب اس زبان میں بات کرنا فخرمحسوس کرتاتھا پھر تاریخ نے پانسا پلٹااس زبان کومسلمانوں کی زبان قراردے کر اْردو ہندی تنازع بنانے کی ناکام کوشش کی گئی یہ اتنی میٹھی ہے کہ ہرزبان کے الفاظ اور تراکیب کو اپنانے میں کوئی عارمحسوس نہیں کرتی ہے بلکہ فخر سمجھتی ہے۔ دوقومی نظریہ اور تحریک پاکستان میں اْردو زبان کی حیثیت واضح تھی کچھ لوگوں کے مطابق مشرقی پاکستان کے کھونے کی ایک وجہ اْردو بنگالی تنازع بھی تھا اردو زبان ناصرف پاکستان کی پہچان ہے بلکہ ہمارا بہت سا تاریخی، مذہبی، اسلامی، ثقافتی اور نظریاتی اثاثہ بھی اسی زبان میں محفوظ ہے جبکہ آئین پاکستان میں اس کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے پاکستان کی یہ واحد زبان ہے جس کو گلگت سے لے کر کراچی تک اور سیالکوٹ سے لے کرگوادرتک سمجھا اور بولا جاتا ہے یہ اعزاز صرف اردو زبان کو حاصل ہے کہ وطن عزیز کی مختلف قومیتوں کوآپس میں جوڑنے کا سہرا بھی اسی کے سرپرسجا ہوا ہے۔
ہم سرکاری اور نجی سطح پر اپنی قومی زبان کو اہمیت دینے کی بجائے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں سرکاری سطح پرتواردو کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ آئین پاکستان میں اردو کوقومی زبان قراردینے کے بعد اردو کے نفاذ کے لیے عملی کوششیں شروع ہوئیں۔ پھر ہر سیاسی جماعت کے منشورمیں اردو کو اپنانا شامل رکھا جاتا تھا جو اب کسی بھی سیاسی جماعت کے منشورکا شاید حصہ نہیں رہا۔ نفاذ اردو کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 1979ء میں حکومت پاکستان نے مقتدرہ قومی زبان جیسے ادارے کا قیام ایک خودمختارادارے کی شکل میں عمل میں لایا پہلے پہلے اس ادارے پرحکومت کی کافی مہربانی رہی اوراس ادارے کو اعلی تعلیم یافتہ صدرنشین میسررہے جو خود بھی پی ایچ ڈی تھے اور درجنوں پی ایچ ڈی اسکالروں کوادارے میں قومی ایشو پرمنسلک کیے رکھتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ بہت اعلی، معیاری اور بروقت نفاذاردو کے لیے سینکڑوں مضامین اور ایشوزپرکتب کوتیارکیا گیا اس وقت لوگ اس کام میں اتنے مگن تھے کہ ان کو پتہ ہی نہیں چلاکہ وہ ریٹائرمنٹ کی عمروں کو جاپہنچے۔ مسئلہ نہ ملازمین کی پنشن تھی اور نہ ہی دوسرے خودمختاراداروں کی طرح مراعات۔ بیچارے ملازم چند ٹکوں کے عوض ریٹائرہونے لگے۔
عدالت کے ذریعے پنشن ہوئیں مگروہ بھی بہت کم اس دوران ملازمین کی ترقیاں اور تعیناتیاں ذاتی پسند اور ناپسند پرہوتی رہیں اور میرٹ کو پس پشت ڈالا گیا اس ظلم کی چکی سے نجات کے لیے اور شخص واحد کی اجاری داری کو ختم کرنے کے لیے وزیراعظم پاکستان نے سال2012ء کو مقتدرہ قومی زبان کوخودمختار ادارہ سے ختم کرکے حکومت کا سرکاری ملحقہ ادارہ، ادارہ فروغ قومی زبان بنانے کی عملی منظوری دے دی۔ اس منظوری کی وجہ کابینہ ڈویڑن کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کو یہ عذرپیش کیاگیا کہ مقتدرہ کے ذرائع آمدن اپنے نہیں ہیں اور یہ خالصتاً حکومت کے بجٹ پرچلنے والا ادارہ ہے لہذابہتر ہوگا کہ اس کو مکمل حکومتی تحویل میں لے لیاجائے۔ اس مذکورہ فیصلہ میں چیئرمین مقتدرہ قومی زبان کی ایماء شامل تھی۔ اس عمل کے دوران ملازمین کے کروڑوں روپوں کے سی پی فنڈزمیں خردبردکی گئی جس سے ملازمین ابھی تک محروم ہیں ادارہ کے مظلوم ملازمین نے سیکریٹری قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن اور وزیراعظم پاکستان کو کئی بار شکایات ارسال کی کہ ہمیں انصاف دلایا جائے ہماراکیس نیب کو بجھوایا جائے مگرملازمین کی آوازہربار دبالی جاتی۔ اب ایک بارپھرادارہ فروغ قومی زبان اور اس کے ملازمین کی قربانی کی تیاری کی جارہی ہے بات کچھ یوں ہے کہ ڈاکٹرعشرت حسین کی زیرنگرانی ادارہ جاتی اصلاحات کمیٹی نے پھرادارہ فروغ قومی زبان کو خودمختارادارہ بنانے کا اصولی فیصلہ کرنے کے بعد قانون سازی کے لیے مراسلہ حکومت کو بھیج دیا ہے۔
ادارہ فروغ قومی زبان کے ملازمین اور قومی مسائل پررائے رکھنے والے لوگوں کے مطابق یہ فیصلہ درست نہیں ہے یہاں پر ہم ملازمین کے تحفظات سے پہلے اس فیصلے کو بطورقومی ایشولیتے ہوئے حکومت اور چیئرمین اصلاحاتی کمیٹی سے چند سوالات پوچھتے ہیں مثلاً جس وجہ ادارے کی ذاتی انکم نہیں ہے اس ادارے کو خودمختارسے حکومت کا ملحقہ ادارہ بنا یا گیا تھا کیا وہ مسئلہ حل ہوگیا؟ یعنی کیا ادارے کے ذرائع آمدن پیدا ہوچکے ہیں؟جبکہ اصلاحاتی کمیٹی نے تمام ایسے ادارے جن کی اپنی آمدن نہیں ہے ان کو ایگزیکٹوادارے بنانے کی تجویز دی ہے اور صرف ادارہ فروغ قومی زبان کوہی خودمختارادارہ کیوں بنایاجارہا ہے؟ قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے ماتحت تمام ملحقہ اداروں کوایگزیکٹوادارے بنانا ماسوائے ادارہ فروغ قومی زبان کیا یہ کھلا تضادنہیں ہے؟ میری معلومات کے مطابق اصلاحاتی کمیٹی کے نمائندوں نے سرکاری اداروں کے ملازمین سے رائے لی ہے کہ ان کے اداروں کو خودمختاریا ایگزیکٹوادارہ بنایا جائے تاکہ کل کوئی مسئلہ نہ پیداہو مگرصرف ادارہ فروغ قومی زبان کے ملازمین سے رائے نہیں لی گئی، کیا یہ بھی پالیسی میں تضاد نہیں ہے؟ ادارہ فروغ قومی زبان کواتھارٹی سے ملحقہ ادارہ اور ملحقہ ادارے سے اتھارٹی بنانا کیا کسی کواندازہ ہے ایسا کرنے سے قومی زبان کو کیا کیا نقصان ہوسکتا ہے۔
مثلاً ادارے کا صدرنشین مقررہوجائے گا وہ اپنی مرضی سے بورڈ آف گورنرزکا انتخاب کروائے گا۔ پھرفردواحد کی حکومت رائج ہوجائے گی وہ پہلے کی طرح اپنی مرضی کی بھرتی کرے گاکوئی اس سے حساب کتاب نہیں لے سکے گا وہ برائے نام ادارے کاآڈٹ کروائے گا یہ باتیں سابقہ واقعات کو مدنظررکھتے ہوئے لکھ رہا ہوں اسی طرح ملازمین کے تحفظات ہیں کہ اس سارے عمل کے دوران ان کو ہواتک لگنے نہیں دی جارہی کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ ان کے سول سرونٹ کے حقوق کس حد تک محفوظ رہیں گے؟ کیا جس طرح ان کے کروڑوں روپوں پہلے ہڑپ کیا گیا ہے یا اپنی نالائقیوں کی وجہ سے ضائع کردیا گیا ہے کیا پھر وہی کھیل دہرایا جائے گا؟ ادارہ کے ملازمین میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ آج تک اس ادارہ میں متعلقہ وزیر شفقت محمود نے قدم کیوں نہیں رکھا اور سیکریٹری ڈویژن ڈاکٹرندیم شفیق ملک نے بھی آج تک ادارہ کے افسران اور سٹاف کا اجلاس تک نہیں بلایا اور نہ ہی یہ زحمت کی ہے کہ کون کون سا شعبہ کیا کیا کام کررہا ہے اور کن کن کو کیا مسائل ہیں۔
قومی زبان سے یہ بے رخی کسی خطرے سے کم معلوم نہیں ہورہی ادارے کے ملازمین کی رائے ہے کہ ہمارے ادارے کو ایگزیکٹوادارہ بنایا جائے ان سب باتوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نفاذاردو کے سلسلے میں حکومت کے وزراء ، مشیر اور سیکریٹری حضرات کتنے مخلص ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اردو کے نفاذ بارے اور مختلف تقاریب میں اردو کو ترجیح بھی دیتے ہیں بلکہ انگریزی میں خطاب کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہتے ہیں اس لیے شفقت محمود صاحب اور سیکریٹری ڈویژن کو چاہیے کہ ادارہ فروغ قومی زبان، قومی زبان اور ملازمین ادارہ پرشفقت فرمائیں اور فرد واحد کی خواہش پرادارہ فروغ قومی زبان کو تباہ نہ کیا جائے فردواحد سے مراد سابق ڈائریکٹرجنرل افتخارعارف صاحب ہیں جن کے بارے ادارہ فروغ قومی زبان میں یہ رائے عام ہے کہ جنہوں نے اپنے تین سالہ دورمیں ادارہ فروغ قومی زبان کو خودمختاربنانے کی کوشش کے علاوہ اورکوئی کام نہیں کیا اردو ہماری قومی پہچان ہے اس ادارے کو جتنا ایگزیکٹوبنائیں گے اتنا ہی ہمارا باوقارقوموں میں شمارہوگا لہذا قومی زبان کے مستقبل کو مدنظررکھتے ہوئے ملازمین ادارہ کی رائے اور تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان بیچارے اور بے ضررملازمین اور اسکالروں کی قدرکرنی چاہیے۔