حالیہ چند سالوں میں ہونے والی ترقی نے پیغام کو عوام تک پہنچانے کے تقاضے بدل دیئے. پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا جو کہ خبر اور اپنے پیغام کو عام کرنے کا ذریعہ تھے وہاں سوشل میڈیا نے اس سمت میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے اخبارات اور میڈیا ہاؤس اس وقت سیاست میں فریق بن چکے ہیں اور اپنے ایجنڈے اور سوشل میڈیا کے دباؤ پر بننے والے ٹرینڈز کو فولو کرتے ہیں یہی حال پڑھی لکھی عوام کا بھی ہے۔ ممالک، ادارے، سیاسی و مذہبی پارٹیاں، اخبارات، میڈیا چینلز، بڑی شخصیات، سیاست دان، حد یہ کہ عام عوام بھی اس وقت اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کررہی ہے۔
آج اقوام کی پالیسی، اس پر دوسرے ممالک اور انکے سربراہ مملکت کے ردعمل، ہونے والے ایونٹ کی خبر اور حد یہ کہ شادی، فوتگی، بچہ کی پیدائش، سالگرہ، طبعیت کی خرابی اور اداسی کی خبر بھی سوشل میڈیا پر عام کی جاتی ہے. پھر اقوام و افراد اس پر اپنا موقف دیتے ہیں میڈیا اس پر تجزیہ کرتا ہے اور عوام اپنے جزبات کا اظہار کرتے ہیں. آج وہ شخص بیک ورڈ، جاہل اور جدید دور کے تقاضوں سے بے بہرہ سمجھا جاتا ہے جو کہ فیس بک، ٹوئیٹر ، یوٹیوب، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ نہ رکھتا ہو، اب چند منٹوں میں کوئی بھی موقف اور پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچ سکتا ہے.اب ہر قسم کی برائی، معلومات اورانٹرٹینمنٹ کے ذرائع انسان کی دسترس میں ہیں ایسے میں یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس جدت کو مثبت سمت اور معاشرے میں بہتری کے لیے استعمال کرے یا پھر اپنے اور اپنے خاندان کے لیے مشکلات کھڑی کردے اور انکے لیے دنیا کو جہنم بنا دے۔
حریم شاہ کے مشرقی روایات، اسلامی اقدار اور اخلاق سے گرے ہوئےاسکینڈلز سامنے آنے اور اس پر میڈیا و سوشل میڈیا کی یلغار کے بعد حریم شاہ کے والد سید ضرار حسین شاہ جو کہ بظاہر ایک شریف النفس اور دین دار انسان نظر آتے ہیں کی ویڈیو سامنے آئی، جسے دیکھنے کے بعد میری وہی کیفیت تھی جو کہ قصور میں معصوم زینب کے ساتھ پیش آنے والے واقعےاور اسے سب سے پہلےسوشل میڈیا پر اجاگر کرنے کے وقت تھی ۔
حریم شاہ کے والد کی باتیں، انکی تھرتھراتی ہوئی آواز اور آنکھوں سے پہنے والے آنسو انکی زات اور خاندان پر گزرنے والے حالات و کیفیات کی عکاسی کررہے تھے۔ درد دل رکھنے والے احباب اور بلخصوص وہ جو کہ میری طرح بیٹی کے والد ہیں وہ سید ضرار حسین شاہ کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں۔ حریم شاہ نے اپنے والدین اور خاندان کو اس مقام پر لاکھڑا کیا جہاں وہ پروردگار کے حضور دعاگو ہونگے کہ وہ انہیں ایسا ہونے سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لیتا۔
ہمارے معاشرے میں پے درپےچھوٹے بچوں سے جنسی زیادتی اور انکا قتل ، اسکینڈلز، سوشل میڈیا کے ذریعے خواتین اور نوجوانوں کے ساتھ ہونے والی دھوکہ دہی اور بگاڑ عام ہے ایسے میں والدین کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے عوام کو آگاہی دینا بےحد ضروری ہوگیا ہے۔ موجودہ حالات نے والدین کو غیر محفوظ بنا دیا ہے وہ ایک انجانے خوف میں مبتلا ہیں اس کا عملی مشاہدہ مجھے خود اپنے گھر میں ہوا، میری زوجہ زینب واقعہ کے بعد، قرآن کی تعلیم کے لیے بچیوں کو سامنے والے گھر میں بھیجتے ہوئے اس وقت تک کھڑکی سے بچوں کو دیکھتی رہتی ہے جب تک کہ وہ چند قدموں پر موجود گھر میں داخل نہیں ہوجاتیں۔
سوشل میڈیاکےایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے میری ایکٹیوسٹ بلخصوص خواتین سے درخواست ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال میں ہر درجہ احتیاط برتیں۔ سوشل میڈیا اس گیلی زمین کی مانند ہے جہاں احتیاط نہ برتی جائے تو انسان پھسل کر ایساگر تا ہے کہ پھر چاہتے ہوئے بھی اپنی ساکھ اور اپنے خاندان کی عزت کو بھال نہیں کرسکتا، لہذا سوشل میڈیا کو فقد معاشرتی مسائل اور ظلم و جبرکو اجاگر کرنے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے استعمال کریں اور یہ بات زہن نشین کرلیں کہ ٹیلی وژن کی سکرین اور سوشل میڈیا پر پائے جانے والے اکثر کردار ، حالات اور کیفیات ویسے نہیں ہوتے جیسے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا ٹی وی ڈرامے اور فلم کی طرح تخیلات اور مفروضات پر مشتمل دنیاہے جہاں افراد کی گفتار و کردار، تہذیب، تعلیم اور اخلاق جیسا نظر آرہا ہے ضروری نہیں کہ وہ ویسا ہی ہو، کسی کی بناوٹی شخصیت سے متاثر نہ ہوں ، انکی باتوں اور دھوکے میں نہ آئیں۔
آپ کے ساتھ سب سے زیادہ مخلص آپ کے والدین اور گھر والے ہیں جنہیں آپ جانتے ہیں جو آپکی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں آپ کو تحفظ اور ہر قسم کی آسائش کی فراہمی کو اپنا فرض سمجھتے ہیں، کسی کی سوشل میڈیا پر جھوٹی شخصیت کو دیکھ کر اپنے سچے اور پیارے رشتوں کو سولی پر نہ چڑھائیں۔ میں کئی سالوں کے سوشل میڈیا پر فعال کردار اورمعاشرتی مسائل سے مکمل آگاہی کی بناء پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اکثیریت احباب جو کہ اپنی پروفائل یا پھر فیک آئی ڈیز سے خواتین سے رابطہ کرتے ہیں انکے پیش نظر فقد دھوکہ ہوتا ہے اور وہ بیک وقت یہ عمل کسی مجھلی کا شکار کرنے والے مچھیرے کی طرح جال پھینک کر کئی احباب سے کررہے ہوتے ہیں اب یہ آپکی سمجھ پر منحصرہے کہ آپ جال میں پھنس کر اپنے گھر والوں کے لیے رسوائی کا باعث بنتے ہیں یا پھرسوشل میڈیا پر ظلم و ستم اور برائی کے خلاف ایک موثر آواز بنتے ہیں۔
سوشل میڈیا جس تیزی سےترقی کر رہا ہے اور اس میں روز بہ روز جدت آتی جا رہی ہے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس جدت کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کریں، معاشرہ، ادارے اور حکومتیں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کررہیں ایسے میں ہمیں معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے اس جدت کو استعمال کرنا چاہئے لیکن والدین کو سوشل میڈیا اور ٹیلی فون کے استعمال پر کچھ قوائد و ضوابط کا اطلاق اور چیک ضرور رکھنا چاہئے مادر پدر آزادی کا تصور نہ ہمارے مذہب اور نہ ہی معاشرے اور روایات کے مطابق ہے آزادی کا تقاضا ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کریں لیکن کسی کے ہاتھوں استعمال نہ ہوجائیں، کیونکہ ہم اپنی زات ہی نہیں اپنے خاندان کی عزت کا بوجھ بھی آپ کے کاندھوں پر ہے۔