واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا میں ہزاروں خواتین مختلف شہروں میں اپنے حقوق کی حمایت میں جمع ہو گئی ہیں۔ یہ خواتین حقوق کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں حقوق کی جدوجہد میں شامل خواتین کی تعداد گزشتہ تین برسوں کے مقابلے میں قدرے کم ہے لیکن پھر بھی یہ ہزاروں میں بتائی گئی ہے۔ چند ہزار خواتین واشنگٹن کی سڑکوں پر اُس مارچ میں شریک ہوں گی، جو اب سالانہ نوعیت کا ایک ایونٹ بن گیا ہے۔
اس مارچ میں شریک ایک پچاس سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں بہت سردی ہے اور شریک خواتین کی تعداد بھی کم ہے لیکن یہ سب بے معنی ہے کیونکہ احتجاج کرنا بہت اہم اور ضروری ہے۔ منتظمین کے مطابق سالانہ بنیاد پر احتجاج کو منظم کرنا حقیقت میں خواتین کی اجتماعی قوت کا اظہار ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے اکھٹی ہیں۔
مارچ میں شریک خواتین کا متفقہ بیانیہ ہے کہ احتجاجی مارچ میں ایک سو عورتیں شریک ہوں یا ایک ہزار یا اس سے بھی زیادہ، اصل بات مشترکہ طور پر آواز بلند کرنا ہے۔ ان کے مطابق مختلف شہروں میں خواتین کا مارچ کے لیے نکلنا ظاہر کرتا ہے کہ امریکا میں خواتین اپنے حقوق کی جد وجہد میں پوری طرح شامل ہیں اور اس مقصد کے لیے مشترکہ کوششوں کی حامی بھی ہیں۔
امریکا کے تقریباً ایک سو اسی شہروں میں ہزار ہا خواتین سالانہ مارچ میں حصہ لیں گی۔ یہ خواتین بچوں کی پیدائش سے متعلق حقوق کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت پالیسی پر نکتہ چینی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ کی ماحولیاتی پالیسی بھی خواتین کے سالانہ مارچ میں تنقید کی زد میں ہے۔ مارچ میں شریک خواتین مہاجرین سے متعلق سخت حکومتی اقدامات پر بھی شاکی دکھائی دیتی ہیں۔
خواتین کے مارچ میں کئی شرکاء ماحول دوست سویڈش ٹین ایجر گریٹا تھنبرگ کی مثال پیش کر رہی ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ اپنے ٹوئیٹس میں تھنبرگ کو بھی نہیں بخش رہے۔ ایک ٹوئیٹ میں ٹرمپ نے سویڈش ٹین ایجر کو ایک کھلونا قرار دیتے ہوئے اُن کی کاوشوں کو چین کے حق میں قرار دیا۔ ٹرمپ کے مطابق ماحول پسند امریکی پیداواری صنعت کو بے عمل کرنے کی کوشش میں ہے۔
خواتین کے مارچ پر واشنٹگن میں حقوق کے لیے سرگرم مقامی کارکن بھی خفگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مارچ میں شریک خواتین مقامی مسائل کو نظرانداز کرتی پھرتی ہیں اور یہ صحیح نہیں ہے۔ واشنگٹن کے مقامی کارکنوں کے مطابق ملکی دارالحکومت ایک داخلی کالونی بن چکا ہے اور مارچ کے منتظمین اس کے حالات کو بہتر کرنے کی ضرورت کو تسلیم کریں۔