حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ کی آنول نال کٹی ہوئی تھی۔(آنول نال کو بچے پیدا ہونے کے بعد دایہ کاٹتی ہے)
آپ ۖختنہ شدہ پیدا ہوئے۔ آپ ۖ کے داداعبدالمطلب یہ دیکھ کر بیحد حیران ہوئے اور خوش بھی۔وہ کہا کرتے تھے، میرا بیٹا نرالی شان کا ہوگا۔(الہدایہ)
آپ ۖکی پیدائش سے پہلے مکّہ کے لوگ خشک سالی اور قحط کا شکار تھے۔لیکن جونہی آپ کے دنیا میں تشریف لانے کا وقت قریب آیا۔بارشیں شروع ہوگئیں، خشک سالی دور ہوگئی۔درخت ہرے بھرے ہوگئے اور پھلوں سے لد گئے۔زمین پر سبزہ ہی سبزہ نظر آنے لگا۔
پیدائش کے وقت آپۖ اپنے ہاتھوں پر جھکے ہوئے تھے۔سرمبارک آسمان کی طرف تھا۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپۖ گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے تھے۔مطلب یہ کہ سجدے کی سی حالت میں تھے۔(طبقات)آپۖ کی مٹھی بند تھی اور شہادت کی انگلی اٹھی ہوئی تھی۔جیسا کہ ہم نماز میں اٹھاتے ہیں۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جب میری والدہ نے مجھے جنم دیا تو ان سے ایک نور نکلا۔اس نور سے شام کے محلات جگمگا اٹھے۔”(طبقات)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ سیدہ آمنہ فرماتی ہیں:
”محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی پیدائش کے وقت ظاہر ہونے والے نور کی روشنی میں مجھے بصری میں چلنے والے اونٹوں کی گردنیں تک نظر آئیں۔”علامہ سہلی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے تو آپ نے اللہ کی تعریف کی۔ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: ”اللہ اکبر کبیرا والحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرة و اصیلا۔
”اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، اللہ تعالیٰ کی بے حد تعریف ہے اور میں صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں۔”آپۖ کی ولادت کس دن ہوئی؟ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ پیر کا دن تھا۔آپ صبح فجر طلوع ہونے کے وقت دنیا میں تشریف لائے۔
تاریخ پیدائش کے سلسلے میں بہت سے قول ہیں۔ایک روایت کے مطابق 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ایک روایت 8 ربیع الاول کی ہے، ایک روایت 2 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔اس سلسلے میں اور بھی بہت سی روایات ہیں۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مہینہ ربیع الاول کا تھا اور دن پیر کا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپۖ کو پیر کے دن ہی نبوت ملی۔پیر کے روز ہی آپ ۖنے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی او ر وہ پیر کا دن ہی تھا جب آپ ۖ ہماری آنکھوں سے پردہ کر گے تھے آپۖ کی پیدائش والے سال کو عام الفیل کہتے ہے ۔آپۖ کی پیدائش یعنی ہاتھیوں والے سال میں۔اس سال کو ہاتھیوں والا سال اس لیے کہا جاتا ہے کہ ابرہہ نے ہاتھیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی تھی۔
آپۖ کی دنیا میں تشریف آوری س واقعہ کے کچھ ہی دن بعد ہوئی تھی ـ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ
ابرہہ یمن کا عیسائی حاکم تھا ـ حج کے دنوں میں اس نے دیکھا کہ لوگ بیت اللہ کا حج کرنے جاتے ہیں ـ اس نے اپنے لوگوں سے پوچھا: یہ لوگ کہاں جاتے ہیں ۔اس کو بتایا گیا کہ بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے مکہ جاتے ہیں ”اس نے پوچھا: بیت اللہ کس چیز کا بنا ہوا ہے” اسے بتایا گیا: پتھروں کا ہے ‘اس نے پوچھا: اس کا لباس کیسا ہے؟ بتایا گیا ” ہمارے ہاں سے جو دھاری دار کپڑا جاتا ہے اس سے اس کی پوشاک تیار ہوتی ہے ” ابرہہ عیسائی تھا ـ ساری بات سن کر اس نے کہا ”: ”مسیح کی قسم! میں تم لوگوں کے لیے اس سے اچھا گھر تعمیر کروں گا ”
اس طرح اس نے سرخ ” سفید ” زرد ” اور سیاہ پتھروں سے ایک گھر بنوایا ـ سونے اور چاندی سے اس کو سجایا اس میں کئی دروازے رکھوائے اس میں سونے کے پترے جڑوائے ـ اس کے درمیان میں جواہر لگوائے ـ اس مکان میں ایک بڑا سا یاقوت لگوایا ـ پردے لگوائے ” وہاں خوشبوئیں سلگانے کا انتظام کیا ـ اس کی دیواروں پر اس قدر مشک ملا جاتا تھا کہ وہ سیاہ رنگ کی ہوگئیں ـ یہاں تک کہ جواہر بھی نظر نہیں آتے تھے۔
پھر لوگوں سے کہا: ” اب تمہیں بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے مکہ جانے کی ضرورت نہیں رہی, میں نے یہیں تمہارے لیے بیت اللہ بنوادیا ہے لہٰذا اب تم اس کا طواف کرو ” اس طرح کچھ قبائل کئی سال تک اس کا حج کرتے رہے ـ اس میں اعتکاف کرتے رہے ـ حج والے مناسک بھی یہیں ادا کرتے رہے ـ
عرب کے ایک شخص نفیل خشمی سے یہ بات برداشت نا ہوسکی ـ وہ اس مصنوعی خان? کعبہ کے خلاف دل ہی دل میں کڑھتا رہا ـآخر اس نے دل میں ٹھان لی کہ وہ ابرہہ کی اس عمارت کو گندہ کرکے چھوڑے گا ـپھر ایک رات اس نے چوری چھپے بہت سی گندگی اس میں ڈال دی ـابرہہ کو معلوم ہوا تو سخت غضب ناک ہوا کہنے لگا: ”یہ کاروائی کسی عرب نے اپنے کعبہ کے لیے کی ہے, میں اسے ڈھادوں گا اس کا ایک ایک پتھر توڑدوں گا ” اس نے شام و حبشہ کو یہ تفصیلات لکھ دیں, اس سے درخواست کی کہ وہ اپنا ہاتھی بھیج دے ـ اس ہاتھی کا نام محمود تھا ـ یہ اس قدر بڑا تھا کہ اتنا بڑا ہاتھی روئے زمین پر دیکھنے میں نہیں آیا تھا ـ جب ہاتھی اس کے پاس پہنچ گیا تو وہ اپنی فوج لیکر نکلا اور مکہ کا رخ کیا ـ یہ لشکر جب مکہ کے قرب و جوار میں پہنچا تو ابرہہ نے فوج کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے جانور لوٹ لیے جائیں ـ اس کے حکم پر فوجیوں نے جانور پکڑ لیے ـ ان میں عبدالمطلِّب کے اونٹ بھی تھے ـ
نفیل بھی اس لشکر میں ابرہہ کے ساتھ موجود تھا اور یہ عبدالمطلِّب کا دوست تھا ـ عبدالمطلِّب اس سے ملے ـ اونٹوں کے سلسلے میں بات کی ـ نفیل نے ابرہہ سے کہا: ” قریش کا سردار عبدالمطلِّب ملنا چاہتا ہے یہ شخص تمام عرب کا سردار ہے ” شرف اور بزرگی اسے حاصل ہے ـ لوگوں میں اس کا بہت بڑا اثر ہے ـلوگوں کو اچھے اچھے گھوڑے دیتا ہے, انہیں عطیات دیتا ہے, کھانا کھلاتا ہےـ ” یہ گویا عبدالمطلِّب کا تعارف تھا ـ ابرہہ نے انہیں ملاقات کے لیے بلالیا ـ ابرہہ نے ان سے پوچھا ” بتائیے آپ کیا چاہتے ہیں؟” انہوں نے جواب دیا: ” میں چاہتا ہوں میرے اونٹ مجھے واپس مل جائیں ” ان کی بات سن کر ابرہہ بہت حیران ہوا ـ اس نے کہا:
” مجھے تو بتایا گیا تھا کہ آپ عرب کے سردار ہے ” بہت عِزّت اور بزرگی کے مالک ہیں ” لیکن لگتا ہے مجھ سے غلط بیانی کی گئی ہےـ کیونکہ میرا خیال تھا آپ مجھ سے بیت اللہ کے بارے میں بات کریں گے جس کو میں گرانے آیا ہوں اور جس کے ساتھ آپ سب کی عِزّت وابستہ ہے ـ لیکن آپ نے تو سرے سے اس کی بات ہی نہیں کی اور اپنے اونٹوں کا رونا لیکر بیٹھ گئے ـ یہ کیا بات ہوئی ” اس کی بات سن کر عبدالمطلِّب بولے ”آپ میرے اونٹ مجھے واپس دے دیں بیت اللہ کے ساتھ جو چاہیں کریں ” اس لیے کہ اس گھر کا ایک پروردگار ہے ـ وہ خود ہی اس کی حفاظت کرے گا ـ مجھے اس کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ” ان کی بات سن کر ابرہہ نے حکم دیا: ”ان کے اونٹ واپس دے دیے جائیں ” جب انہیں ان کے اونٹ واپس مل گئے ” تو انھوں نے ان کے سموں پر چمڑے چڑھا دیے ـ ان پر نشان لگادیے ـ انہیں قربانی کے لیے وقف کرکے حرم میں چھوڑ دیا تاکہ پھر کوئی انہیں پکڑ لے تو حرم کا پروردگار اس پر غضب ناک ہو ـ پھر عبدالمطلِّب حِرا پہاڑ پر چڑھ گئے ـ ان کے ساتھ ان کے کچھ دوست تھے ـ انہوں نے اللہ سے درخواست کی: ”اے اللہ! انسان اپنے سامان کی حفاظت کرتا ہے، تو اپنے سامان کی حفاظت کر۔”
ادھر سے ابرہہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھا۔وہ خود ہاتھی پر سوار لشکر کے درمیان موجود تھا۔ایسے میں اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ہاتھی بانوں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ اٹھا۔انہوں نے اس کے سر پر ضربیں لگائیں۔آنکس چبھوئے مگر وہ کھڑا نہ ہوا۔کچھ سوچ کر انہوں نے اس کا رخ یمن کی طرف کیا تو وہ فوراً اس طرف چلنے لگا۔اس کا رخ پھر مکہ کی طرف کیا گیا تو پھر رک گیا۔ہاتھی بانوں نے یہ تجربہ بار بار کیا۔آخر ابرہہ نے حکم دیا، ہاتھی کو شراب پلائی جائے تاکہ نشے میں اسے کچھ ہوش نہ رہ جائے اور ہم اسے مکہ کی طرف آگے بڑھاسکیں۔چنانچہ اسے شراب پلائی گئی، لیکن اس پر اس کا بھی اثر نہ ہوا۔
ابرہہ کے ہاتھی کو اٹھانے کی کوشش جاری تھی کہ اچانک اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کی حفاظت کے لئے رسالت مآب ۖ کے دادا عبدالمطلب کی دعا قبول فرماتے ہوئے سمندر کی طرف سے ابابیلوں کو بھیج دیا ۔ اور ابرہہ لشکر سمیت نشان عبرت بن گیا۔آمد رسول ۖ