تعلیم اور علم کو عموماً ایک ہی معنیٰ میں لیا جاتا ہے کیونکہ دونوں کا تعلق جاننے سے ہے نامعلوم کو معلوم کرنے کی کھوج سے منسلق ہے۔نامعلوم حقاٸق کو معلوم کرنے کے لیۓ جو کوشش یا محنت کی جاتی ہے تاکہ اُس متعلقہ ہدف تک پہنچا جا سکے ۔ جب ہدف کی بات کی جاتی ہے تو تعلیم اور عِلم کی شاخیں الگ الگ ہونے لگتی ہیں ۔ جہاں پر تعلیم اور عِلم سکھایا اور سیکھا جاتا ہے اُسے سکول، کالج ، یونیورسٹی، درس گاہ، مندرسہ، مسجد یا مکتب اِس کے علاوہ اور بھی کٸ دیگر ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ اِنہی جگہوں پر کہیں کہیں ادب بھی سِکھایا جاتا ہے ادب یا خدمت کے نِرالے انداز ہیں مگر ادب کی بات آخر میں ہو گی۔
تعلیم ٠زندگی کو اچھے طریقے سے گزارنے کے لیے ہمیں سب سے بنیادی جو چیز ضرورت ہوتی ہے اُسے پیسہ کہتے ہیں ۔ کیونکہ پیسہ ہوگا تو ہم روپے پیسے کے زریعے اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکتے ہیں ۔ ایسا ہُنر جو ہمیں روپے پیسے کمانے کے طریقے سِکھاتا ہے ایسے ہُنر کو تعلیم کہتے ہیں ۔ تعلیم کے زریعے سے انسان جینے کے اور لوگوں کے ساتھ میل جھول کے طریقے سِیکھتا ہے اور سامنے والے کے سامنے اپنی تصویر کو اور بڑا کر کے دِکھاتا ہے ۔حیثیت، شعبہ، رُتبہ یا صند کے اعتبار سےتعلیم جیسے ہُنر کو سیکھ لینے کے بعد انسان زیادہ سے زیادہ چاند تک پہنچ سکتا ہے۔
عِلم کے معنیٰ بھی سیکھنے یا نامعلوم کو معلوم کرنے کی جستجوں سے وابستہ ہیں۔ عِلم وہ پیالہ ہے کہ جس میں جتنی پیاس ہوگی وہ جی بھر کر پی لے گا مگر پیاس پھر پہلے سے زیادہ ہوجاۓ گی ۔اب پیاس کا پھر سے زیادہ ہوجانا یہ حیرانگی والی بات ہے جی بھر کر پی لینے کے بعد بھی آپ کی تڑپ پہلے سے اور زیادہ بڑھ گٸ ہے یہ معاجراہ سمجھنے والا ہے یہی نقطہ تعلیم اور عِلم میں فرق کرتا ہے۔کیونکہ تعلیم کے دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ ایک مقصد صند ہے۔ آپ متعلقہ صند کے حُصّول کے بعد اُس سے بڑی ڈگری کے خواہشمند ہو جاتے ہیں یا ضرورت کی حد تک اُسی متعلقہ تعلیم کو باربار سیکھتے سمجھتے ہیں تاکہ آپ اپنے متعلقہ شعبہ کے اندر مزید ترقی کر سکے اور مزید دولت کما سکیں۔ مگر عِلم کسی اور دریا کا نام ہے، عِلم کی راہ اور ہے آپ اِس راہ پر چل کے عِلم کو سیر ہوکر پی لیتے ہیں مگر تعجب ہے کہ اِس میں ایسا کیا ہے۔ آپ کی آگ، تڑپ لگن پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔۔۔جی وجہِ تڑپ، لگن کی یہ ہے کہ اِس میں جنابِ مصطفیٰ، مُحَمَّدِ عربیﷺ کا تعارف ہے۔ جیسے دینِ برحق اسلام مکمل ہو چُکا ہے، ویسے ہی عِلم بھی مکمل ہو چکا ہے ۔اب اِس عِلم کو آپ نے اپنے اپنے ظرف یا پیالے کے حساب سے حاصل کرنا ہے ۔عِلم کی بنیاد اللہ اور اللہ کے حببیبﷺ کا تعارف ہے اور ازل سے ابد تک کا تعارف ہے اور اِس تعارف میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور پورا قرآنِ مجید بھرا ہوا ہے۔
عِلم کو آپ رسائی بھی کھ سکتے ہیں اور عِلم کی رساٸ اللہ کے عرش تک جا مِلاتی ہے۔ عِلم وہ دریا ہے جس میں تعلیم، ادب، محبت اور عشق تیہر رہا ہے۔ اب جو جِس کے پیچھے لگ جاۓ۔ عِلم کے اندر رہتے ہوۓ تعلیم، ادب، محبت اور عشق الگ الگ سے خود ایک ایک دریا ہیں اور عِلم سینہ با سینہ منتقل ہوتا ہے۔
ادب: اگر تعلیم اور عِلم کی کمی رہ جاۓ تو زندگی کے کسی بھی حِصّہ میں کسی بھی موڑ پر پوری کی جاسکتی ہے مگر تربیت کی کمی رہ جاۓ تو اِس خَسارے کا پورا کرنا مشکل ہے ہاں مگر ناممکن نہیں ہے۔ ادب کے مقام تک پہنچنے کے لیۓ آپ کو ادب کی کسوٹی سے گزرنا پڑے گا۔ بزرگوں کی محافل میں جانا پڑے گا، خدمت کرنی پڑے گی۔ والدین کی، اپنے کُمبے کی ۔استاد کی ۔اللہ کی مخلوق کی اور خدمت میں اپنی زات کی نفی کرنی پڑے گی تب جا کر آپ کی خدمت سے آپ کو آپ کا خُدا مِلے گا یہی ہے اصل کہ خدمت سے خُدا مِلتا ہے ۔حببیبِ خُدا ﷺ مِلتے ہیں۔ ادب، اخلاق ،خدمت اِن کے لیۓ ممکن ناممکن کی بات کبھی کی ہی نہیں جاتی بس ہو جانے کی بات کی جاتی ہے۔
جتنا بڑا ادب ہوگا اُتنا بڑا انعام ہوگا، جتنی بڑی خدمت ہوگی اُتنا بڑا آپ کا تعارف ہوگا اور جتنی گھٹیاں درجہ کی خدمت ہوگی مثلاََ مسجد، مندرسے کے غسل خانے دھونا صاف کرنا اِس کے لیے کسی تعلیم یا عِلم کی ضرورت نہیں یہ خدمت ہے سخی کے گھر کی شہنشاہ کے گھر کی ایسی خدمت سے آپ کے کام بھی جَلد بنیں گے اور غاٸب کی طاقت بھی آپ کے ساتھ ہو جاۓ گی اور آپ کا اندر صاف ہو جاۓ گا اِس کے ساتھ ساتھ قلب کا سکون بھی نصیب ہوگا۔ ادب کو ہر بُلندی حاصل ہے جو تعلیم اور عِلم کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔
تعلیم پہلا قدم ہے اس کے بعد علم کو بُلندی ہے ۔ عِلم سے بڑی عظمت ادب کو حاصل ہے اور اِس حاصل سے بڑا مُقام خدمت کا ہے۔ کہ خدمت سے خُدا ملتا ہے۔ اور اِن سب کا اُستاد عشق ہے۔
کہ عشق میں بے ادبی بھی عین عبادت ہے ۔چونکہ عشق خود چلتی پھرتی عبادت ہے ۔ عِشق پر بات اللہ نے چاہا تو پھر کبھی ہوگی۔ اللہ آپ کو ادب اور خدمت کی دولت سے نوازے۔