واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کے ماہرین نے ایمازون کے بانی و واشنگٹن پوسٹ کے مالک جیس بیزوس کے موبائل فون کی ہیکنگ کے معاملے کی فوری تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ بیزوس کا فون سعودی ولی عہد کے ایک میسج کے بعد ہیک ہوا تھا۔
اقوام متحدہ کے دو ماہرین نے اس رپورٹ کی فورا تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جس کے مطابق جیس بیزوس کا موبائل فون امکانا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے نمبر سے ایک ویڈیو پیغام موصول ہونے کے بعد ہیک ہوا۔ امریکی شہر لاس اینجلس میں دو برس قبل ایک عشائیے کے وقت دونوں نے ایک دوسرے کا ٹیلی فون نمبر ایک دوسرے کو دیا تھا اور یہ واقعہ اس عشائیے کے بعد کا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ محمد بن سلمان سے اس بارے میں بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے کہ وہ ان افراد کو مسلسل نشانہ بنانے کی کوشش کیوں کرتے رہے ہیں جنہیں وہ اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایمازون کے مالک جیف بیزوس کے فون ڈیٹا کو ہیک کرنے کے لیے جس نمبر کا استعمال کیا گیا، وہ محمد بن سلمان کے ذاتی استعمال میں تھا۔ اس بات کا انکشاف ایک رپورٹ میں ہوا ہے۔ تاہم
گزشتہ روز سعودی عرب نے ایسے الزامات کی سختی سے تردید کی۔
اقوام متحدہ سے منسلک ایگنس کلامارڈ اور ڈیوڈ کائی نے اس معاملے کی فوری تفتیش کی مطالبہ کیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کلامارڈ نے اس سے متعلق ایک بیان میں کہا کہ انہیں یقین ہے کہ فون اس لیے ہیک کیا گیا تاکہ سعودی عرب سے متعلق واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونی والی خبروں کو اگر مکمل طور پر روکا نہ بھی جا سکے، تو ان پر اثر انداز ہوا جا سکے۔ اس معاملے کی امریکا کی جانب سے فوری طور پر تفتیش ہونی چاہیے۔
جیف بیزوس امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے بھی مالک ہیں۔ یہ وہی اخبار ہے، جس کے لیے سعودی صحافی جمال خاشقجی کام کرتے تھے، جنہیں سن 2018 میں ترکی میں سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد جیف بیزوس اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے۔
چونکہ ان سفارشات پر عمل لازم نہیں ہے، اس لیے ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکی حکام اقوام متحدہ کے ان ماہرین کیمطالبات پر کیا کارروائی کریں گے۔ لیکن معروف اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکی تحقیقاتی ادارہ ایف بی آئی اس معاملے کی تفتیش کر رہا ہے۔
واشگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس کے مطابق جیف بیزوس کا فون ایک ویڈیو فائل کے ذریعے ہیک کیا گیا۔ یہ ویڈیو فائل مئی 2018 میں اسی واٹس ایپ اکانٹ سے بھیجی گئی تھی، جس کا استعمال سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کرتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق جیسے ہی بیزوس کے فون میں یہ ویڈو فائل پہنچی، ان کے آئی فون سے ڈیٹا منتقل ہونا شروع ہو گیا اور جس کے سبب ان کے فون میں عجیب و غریب تبدیلیاں بھی دیکھی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق محمد بن سلمان اور جیف بیزوس نے واقعے سے ایک ماہ قبل ہی اپنے فون نمبروں تبادلہ کیا تھا۔ مذکورہ ویڈیو فائل پہنچتے ہی بیزوس کے فون سے بہت سارا ڈیٹا کھینچ لیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس کے ذریعے جیف بیزوس کی ذاتی اور خفیہ معلومات حاصل کی گئیں اور بعد میں انہیں ایک امریکی اخبار میں شائع کیا گیا۔
امریکا میں سعودی سفارت خانے نے اپنے ٹوئٹر اکانٹ پر ان خبروں اور ولی عہد پر عائد کیے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ سفارت خانے کا کہنا ہے، ہم ان دعووں کی فوری تفتیش چاہتے ہیں تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔ دوسری جانب ایمازون کے مالک جیف بیزوس کی جانب سے اس بارے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔