کافی دنوں بعد خوشی کی خبر پڑھنے اور سننے کو ملی جب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سوا لاکھ سے زائد سرکاری آسامیوں پر بھرتی کا حکم دیا گیا وزیراعظم عمران خان نے وزارتوں کو خالی آسامیاں فوری پر کرنے کی ہدایت کردی۔رپورٹ کے مطابق گریڈ 21 اور گریڈ 22 کی 96 آسامیاں خالی ہیں، گریڈ 8 سے گریڈ 15 تک کی 41 ہزار، گریڈ ایک سے گریڈ 7 تک کی 51 ہزار جبکہ گریڈ 16 سے گریڈ 22 کی 13 ہزار421 پوسٹوں پر کوئی افسر تعینات نہیں۔ وفاقی حکومت نے ان آسامیوں کی تفصیلات اور انہیں پُر کرنے کے لیے وزارتوں کو ریڈلیٹر بھی جاری کیے تھے۔
افسوس ناک خبر یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے 180 ممالک میں کرپشن سے متعلق سال 2019 کی رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق 2019 میں پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں مزید ایک درجہ تنزلی ہوگئی۔ 2018 کے مقابلے میں 2019 کے دوران پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے، 2018کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کا سکور 33 تھا جو 2019 میں خراب ہوکر 32 پر آگیا۔ عالمی درجہ بندی میں 3 درجہ تنزلی کے بعد پاکستان 120ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔
پہلا نمبر حاصل کرنے والے ڈنمارک کا سکور بھی ایک پوائنٹ کم ہو کر 87 رہا جب کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کا انسداد بدعنوانی کا سکور بھی کم رہاجنوبی ایشیائی ممالک کی بھی کرپشن پرگرفت کمزورہے امریکہ کا سکور 2، برطانیہ، فرانس کا 4 اورکینیڈا کا انسداد بدعنوانی سکور 4 درجہ ہوگیا جب کہ جی7کے ترقی یافتہ ممالک بھی انسداد بدعنوانی کی کوششوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک کی بھی کرپشن پرگرفت کمزور پڑی ہے،کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق بھارت 41 سکور کے ساتھ 80 ویں درجے پرآگیا، بنگلا دیش اور ایران 26 سکور کیساتھ 146 ویں درجے پرپہنچ گئے جب کہ ملائیشیا نے 6 نمبرزیادہ حاصل کیے جو 53 کی سکور کیساتھ 51ویں درجے پر رہا۔ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی کرپشن روکنے کے لیے اپنی سفارشات بھی دی ہیں جو درجہ ذیل ہیں۔ سیاست میں بڑے پیسے اور اثرورسوخ کو قابو کیا جائے، بجٹ اور عوامی سہولیات ذاتی مقاصد اور مفاد رکھنے والوں کے ہاتھوں میں نہ دی جائیں۔ مفادات کے تصادم اور بھرتیوں کا طریقہ تیزی سے بدلنا قابو کیا جائے۔ دنیا بھر میں کرپشن روکنے کیلئے لابیز کو ریگولیٹ کیا جائے۔ الیکٹورل ساکھ مضبوط کی جائے اور غلط تشہیر پر پابندی لگائی جائے۔ شہریوں کو با اختیار کریں، سماجی کارکن، نشاندہی کرنے والوں اور جرنلسٹ کو تحفظ دیں۔کرپشن روکنے کے لئے چیک اینڈ بینلنس اور اختیارات کو علیحدہ کیا جائے۔
جن ملکوں نے کرپشن انڈیکس میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے انہوں نے مالیات کے قواعد و ضوابط کو بھرپور طریقے سے نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر سیاسی مشاورت بھی کی اور یہی وجہ ہے کہ ایسے ملکوں کا اوسط سکور 70 رہا جبکہ جن ممالک میں نظام سرے سے ہی موجود نہیں یا انتہائی خراب ہے، ان کا اوسط سکور بالترتیب 34 اور 35 رہا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی منیجنگ ڈائریکٹر پیٹریشیا مریرا نے کہا کہ اکثر ملکوں میں کرپشن کے خلاف کوئی پیشرفت نہ ہونا مایوس کن ہے جس سے دنیا بھر میں شہریوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ سے تبدیلی،احتساب اور نئے پاکستان کے مشن پر سوالیہ نشان ہے، ایسی سلسلے میں اگر بات کی جائے۔
محکمہ پنجاب سوشل سکیورٹی کی تو خبر ہے کہ صرف ایک سال میں چیئرپرسن سلیکشن کمیٹی سمیت کئی اہم افسروں کی تعیناتیاں بھی مشکوک، من پسند اور سفارشی ملازمین کی ایک سا ل میں 15گریڈ سے 17گریڈ تک غیر قانونی طریقے سے ترقی،متعدد سابق ملازمین فارع، سینکڑوں سے بد ترین سلوک جاری ہے۔ناقص کارکردگی پر برطرف ڈائریکٹرکے ”پی اے“کے بیٹے کو15گریڈ سے 17گریڈ میں تعینات کردیا گیا۔ درجنوں ملازمین کو ایک دن کی ڈیوٹی کرنے پر تین،تین ماہ کی تنخواہیں جاری بھی کی گئیں۔پنجاب سوشل سکیورٹی کے سکینڈل سے بچنے کے لئے اہم شخصیات نے محکمہ کی نجکاری کے لئے حکومت کو تجویر پیش کردی۔منیب گوہر جو کہ پنجاب سوشل سکیورٹی کی ڈائریکٹر ریفارمز مس فاطمہ کے انڈر سٹینوگرافر گریڈ 15 کے طور پر کام کرتا تھا نیو ریٹینر شپ پالیسی کے تحت اس کو اسسٹنٹ گریڈ 16 میں تعینات کیا گیا،کیونکہ منیب گوہر کے والد وائس کمشنر کلثوم ثاقب کے ڈرائیور ہیں۔
اسی طرح بے شمارملازمین کا ریکارڈ نامکمل ہے۔جن کو اعلیٰ شخصیات اورافسروں کی سفارش پر تعینات کیا گیاہے۔اگر حکومت نے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی نہ تو آنے والے وقت میں پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہو گا اور کرپٹ لوگوں میں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ محکموں کی نجکاری کی تجویز پیش کرنے والوں احتساب کیا جائے اور ملکی بدنامی کا باعث بننے والے عناصر کو سخت سزا دی جائے۔