روئے زمین پر انسانوں سے دیگر جانداروں کا رشتہ بھی اتنا ہی پرانا ہے، جتنا خود انسان کا زمین سے ہے۔انسان جانوروں،پرندوں اور دیگر جانداروں کو اپنے مقاصد، خاص کر خوراک کے لئے استعمال کرتا آیا ہے۔ وبائیں بھی نسل در نسل جانداروں سے انسانوں تک منتقل ہوتی گئیں۔زمانہ قدیم میں ان وباؤں کی تشخیص خاصہ مشکل،شاید ناممکن کام تھا۔تاہم دیگر ماحولیاتی بیماریاں خاصی کم ہوں گی۔قدیم لوگوں کی قوت مدافعت بھی زیادہ ہو تی ہو گی۔موجودہ دور تو سائنسی کرشمات کا دور ہے۔کسی بھی وباء کی فوری تشخیص ہو جاتی ہے۔آج سائنسی جدت کی بدولت، بہت سی جان لیوا بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہے۔
کرونا وائرس بھی دیگر وباؤں کی طرح جانوروں اور پرندوں سے منتقل ہونے والے وباء کی ایک قسم ہے۔جانداروں سے منتقل ہونے والی چند بیماریاں،خسرہ،لاکڑہ کاکڑہ،انفلوئنزہ،ایڈز،خناق اور ٹی بی وغیرہ ہیں۔
درحقیقت کرونا وائرس ایک قسم کے وباؤں کا گروپ ہے، جو دودھ دینے والے جانوروں اور پرندوں میں بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ابتدائی طور پریہ وائرس 1960میں دریافت ہوا۔اس کا جینومک سائز قریب 26سے32کلو بیسس ہے،جو ایک آر این اے وائرس کے لئے سب سے بڑا ہے۔یہ گائے اور خنزیر میں ڈائیریا اور مرغیوں میں سانس کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔اس وباء کی سات کے قریب اقسام جانداروں سے انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔جو انسانوں میں سانس کے وبائی مرض کا سبب بنتا ہے۔اس مرض کے لئے کوئی بھی منظور شدہ دوا یا ویکسین موجود نہیں ہے۔
اس وباء کا نام کرونا اس کی مائیکروسکوپی شکل کو دیکھ کر رکھا گیا۔جو شاہی تاج سے مماثلت رکھتی ہے اور لاطینی زبان میں تاج کو’کرونا‘ کہتے ہیں۔
انسانوں میں منتقل ہونے والے کرونا وائرس کی سات اقسام:
ؐکرونا وائرس’229E،0C43،NL63اورHUK1‘مستقل طور پر انسانی آبادی میں گردش کرتے ہیں۔پوری دنیا میں موجود بچوں اور بڑوں میں سانس کے وبائی مرض کا سبب بنتے ہیں۔ یہ قسم2003میں 37ممالک تک پھیلی۔’سارس کرونا‘ نامی اس وباء نے 8000لوگوں کو متاثر کیا،جبکہ 775لوگ جان کی بازی ہا رگئے۔ ستمبر 2012میں مشرق وسطی میں ’مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سینڈروم‘ سے سینکڑوں لوگ متاثر ہوئے۔
دسمبر 2019میں ’نووال کرونا وائرس‘ کا پتا چائنہ کے شہر ووہان میں بے جا نمونیا کے پھیلنے سے لگا۔جس کا نام ’ورلڈ ہیلتھ آرگینائزیشن‘نے ’ہیومن کرونا وائرس نووال 2019‘رکھا۔یہ کرونا وائرس کے خاندان کا ایسا رکن ہے، جس سے پہلے کبھی سامنا نہیں ہوا۔شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ،یہ وائرس بلوں یا سانپ کی کسی خاص قسم سے انسانوں میں منتقل ہوا۔تاہم اس سے متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگ یا تو ہوانان کے شہر ووہان میں سمندری غذا کا کام کرتے تھے یا پھر خریدار تھے۔
علامتی طور پر دیکھا جائے تو یہ وائرس انسان میں نمونیا کا سبب بن سکتا ہے۔اس سے کھانسی،نزلہ وزکام،بخار اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چونکہ یہ ایک وائرل نمونیا ہے،لہذا جراثیم کش(AntiBiotic) کا کوئی فائدہ نہیں۔یہ دوائیں کام نہیں کریں گی۔اگر لوگوں کو بروقت ہسپتال داخل کرایا جائے، تو وہ اپنے پھیپھڑوں اور دوسرے اعضاء کے ساتھ اپنے سیالوں (Fluids) کو بھی محفوظ بنانے میں مدد حاصل کر سکتے ہیں۔اس سے بازیابی کا انحصار زیادہ تر قوت مدافعت پر ہوگا۔زیادہ تر فوت شدگان کی عمریں پچاس سال سے زیادہ اور ان کی مجموعی صحت بھی خراب تھی۔
’چین کے قومی صحت کمیشن‘کے مطابق اس وباء کی انسان سے انسان تک منتقلی کی تصدیق ہو چکی ہے۔اب تک 60کے قریب ہلاکتوں کی اطلاعات موجود ہیں۔مجموعی طور پر دو ہزار سے زائد کیس سامنے آ چکے ہیں۔جن میں چائنہ 1995،امریکہ3،فرانس3،نیپال1،تھائی لینڈ4، ملیشیاء3، سنگاپور3،ویتنام2،جنوبی کوریا2،جاپان2،تائیوان3،مکاؤ2،ہانگ کانگ3،آسٹریلیاء1اورکینیڈا میں بھی1 کیس سامنے آ چکا ہے۔ یہ تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔دنیا بھر بالخصوص چین کے ہمسایہ ممالک میں اس کی تشخیص کے لئے چھان بین شروع ہوچکی ہے۔ متعدد ممالک چین کے شہر ووہان سے اپنے شہریوں کو نکالنے کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
خدشات موجود تھے کہ، 24جنوری سے شروع ہونے والے ہفتہ طویل قمری نئے سال کی تعطیلات کے دوران کرونا وائرس زیادہ وسیع پیمانے پر پھیل سکتا ہے۔لیکن یہ تہوار کافی حد تک منسوخ کر دیئے گئے۔ووہان سمیت دیگر چینی شہروں کو آمدورفت کے لئے بندکر دیا گیا۔ لیکن ماہرین پریشان ہیں کہ یہ وائرس اب تک ظاہر ہونے والی علامات سے کہیں زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے۔
ماہرین نے ہدایات دی ہیں کہ چائنہ یا متاثرہ علاقوں میں مقیم یا سفر کرنے والے گرم پانی کا استعمال کریں،خوراک کو اچھی طرح پکا کر کھائیں،گرم پانی سے بار بار ہاتھ دھوئیں، صاف ستھرے رہیں اور ماسک کا استعمال کریں وغیرہ۔
ایسے علاقوں میں ابھی تو جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آئندہ جانوروں کی چھان بین کیسے ممکن ہوگی؟کیا جانوروں کی بھی ویکسی نیشن ضروری ہے؟ آخر کیسے اس وباء کو جانوروں میں ہی ختم کر دیاجائے؟بعض مسلم تجزیہ کاروں کے نزدیک حلال خوراک کے استعمال سے اس وباء سے بچا جا سکتا ہے۔یہ وباء کس جانور سے پھیلی ہے ابھی تحقیقات جاری ہیں قبل از وقت کچھ بھی کہنا مناسب نہیں۔
پاکستان چونکہ چین کا ہمسایہ ملک ہے۔سی پیک کے بہت سے ترقیاتی مقامات پر چینی باشندے موجود ہیں۔اسی طرح کاروبار کی غرض سے بہت سے پاکستانی چائنہ کا سفر کرتے ہیں۔قریب پانچ سو پاکستانی طلباء چائنہ کے شہر ووہان ہی میں مقیم ہیں۔
اسی بنا پر پاکستان میں بھی ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ابھی تک پاکستان میں کوئی تصدیق شدہ کرونا وائرس سے متاثرہ مریض تو سامنے نہیں آیا۔تاہم شبہ ہے کہ ملتان کے نشتر ہسپتال میں موجود ’فینگ فین‘ میں ملتی جلتی علامات پائی گئیں،اسے اور اس کے ساتھی کو بھی زیر نگہداشت رکھا گیا ہے۔ اسی طرح لاہور میں بھی تین چینی باشندوں کو سروسز ہسپتال میں زیر نگہداشت رکھا گیا ہے،اور ان کے نمونے مزید تحقیق کے لئے بجھوائے جا رہے ہیں۔واضع رہے کہ، یہ پانچوں چینی متاثرہ شہر ووہان سے پاکستان منتقل ہوئے ہیں۔فی الوقت پاکستان میں کرونا وائرس کی تشخیص کے لئے مناسب سہولتیں موجود نہیں ہیں۔امید کرتے ہیں محکمہ صحت اور حکومت جلد از جلد اس کی تشخیص کو ممکن بنائے گی۔تاکہ اس مہلک وباء کو ملک بھر میں پھیلنے سے پہلے ہی روک لیا جائے۔اگر ممکن ہو تو وزارت خارجہ صرف ووہان میں موجود پاکستانیوں خاص کر طلباء کو نکالنے کے لئے عملی اقتدامات کرے۔تاکہ سینکڑوں خاندانوں کے چراغ اپنی روشنی کو قائم رکھ سکیں۔