اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیر ریلوے شیخ رشید سے تیز گام ایکسپریس حادثے سے متعلق مکالمہ کیا کہ بتا دیں 70 آدمیوں کےمرنے کا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے؟ ریل جلنےکے واقعے پر تو آپ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں عدالت کے طلب کرنے پر وزیر ریلوے شیخ رشید سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ نے شیخ رشید سے ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے پلان طلب کرلیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ دو ہفتوں میں ریلوے سے متعلق جامع پلان پیش کریں اور شیخ رشید نے عدالت کو دیےگئے پلان پر عمل نہ کیا تو توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے ایم ایل ون کی منظوری نہ ہونے پر وفاقی وزیر اسد عمر کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے شیخ رشید سے استفسار کیا کہ وزیر صاحب بتائیں کیا پیش رفت ہے، آپ کا سارا کچا چٹھا تو ہمارے سامنے ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے شیخ رشید سے مکالمہ کیا کہ میرے خیال سے ریلوے کو آپ بند ہی کردیں، جیسے ریلوے چلائی جا رہی ہے ہمیں ایسی ریلوے کی ضرورت نہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ 70لوگ جل گئے بتائیں کیا کارروائی ہوئی؟ اس پر وزیر ریلوے نے بتایا کہ 19 لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ گیٹ کیپر اور ڈرائیورز کو نکالا، بڑوں کو کیوں نہیں؟ وزیر ریلوے نے جواب دیا کہ بڑوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی جس پر معزز چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ سب سے بڑے تو آپ خود ہیں، بتا دیں 70 آدمیوں کےمرنے کا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے، ریل جلنےکے واقعے پر تو آپ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔
جسٹس گلزار کے ریمارکس پر شیخ رشید نے کہا کہ آپ کہتے ہیں تو میں استعفیٰ دے دیتا ہوں۔
شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ ایم ایل ون 14 سال پرانا منصوبہ ہے، اس پر عمل نہیں ہوا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے پرانے رونے نہ روئیں، ریلوے کے پاس نہ سگنل ہے نہ ٹریک اور نہ بوگیاں، ریلوے میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے، ریلوے افسران جس کو چاہتے ہیں زمین دے دیتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ سرکلر ریلوے ٹریک کی بحالی کے لیے مزید وقت نہیں دیا جائے گا، سرکلر ریلوے ٹریک سے بے گھر ہونے والوں کی بحالی ریلوے کی ذمہ داری ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمار کس دیے کہ سرکلر ریلوے کی 38 کنال زمین عدالتی حکم پر خالی ہوئی، کراچی میں کالا پل دیکھیں،کیماڑی جائیں دیکھیں کیا حال ہے، ریلوے جا کدھر رہی ہے۔
عدالت کی برہمی پر شیخ رشید نے کہا کہ عدالت مہلت دے معیار پر پورا نہ اترا تو استعفیٰ دے دوں گا۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریلوے ایم ایل کا فنانس کہاں سے لائے گی؟ سالانہ اربوں کا خسارہ ہورہا ہے، اس پر شیخ رشید نے کہا کہ 5 سال میں ریلوے کا خسارہ ختم ہو جائے گا، حکومت پنشن لے لے توخسارہ آ ج ہی ختم ہو جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ ریلوے کا ہر افسر پیسے لے کر بھرتی کررہا ہے، ایم ایل منصوبہ کیا جادوگری ہے، ٹرینیں وقت پر نہیں پہنچتیں، انجن راستے میں خراب ہو جاتے ہیں، شیخ رشید صاحب بطور سینئر وزیر آپ کی کارکردگی سب سے اچھی ہونی چاہیے تھی، لوگ آپ کی باتیں سنتے ہیں لیکن آپ کا ادارہ سب سے نااہل ہے۔
سپریم کورٹ نے ریلوے خسارہ کیس کی مزید سماعت 12فروری تک ملتوی کر دی۔
عدالت میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شیخ رشید نے کہا کہ آج چیف جسٹس نے ریلوےکی بہتری اوربھلائی کے لیے احکامات دیے ہیں، چیف جسٹس کی ہدایت پر ریلوے آگے بڑھے گی، ہمیں 15 دن کا نوٹس دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے ہدایت دی ہےکہ ایم ایل ون پرفی الفورٹینڈر دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں قوم کے لیے درد اور سوچ عدلیہ کی بھی ہے، ساری قوم کی پریشانی کا بھی عدالت کواحساس ہے، عدالت کے مشکور ہیں، چیف جسٹس کی ہدایت کے مطابق ریلوے کوآگے لے کرجائیں گے، چیف جسٹس نے جوبھی ہدایت کی ہے اس پرعمل کریں گے۔
وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ آڈٹ رپورٹ ہمارے دورکی نہیں، 2013 سے 2017 تک کی ہے، جب ہمارےدورکی آڈٹ رپورٹ آئے گی تواعتراضات کا جواب دیں گے۔
ایک صحافی کے سوال کے جواب میں شیخ رشید نے کہا کہ چیف جسٹس کہیں توابھی استعفیٰ دے دوں گا، آپ کی خواہش پر نہیں۔