بہت عرصہ گذرا لفظ محبت نا آشنا سا لگنے لگا تھا سیاست نے قوم کو اس طرح جکڑا ہے کہ کچھ اور سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا ڈرامے فلمیں سب ایک یاد بن کر رہ گئے ،ساس بہو اور نند بھابھی کی سازشیں بھی گھریلو سیاست لگنے لگیں ظالم شوہر مظلوم بیوی ،بٹی ہوئی اولاد یہی چکر چل رہا تھا کہ دانش کی صورت میں اچانک ایک مظلوم شوہر سامنے آگیا جب اس نے شہوار کے ساتھ جاتی ہوئی اپنی بیوفا بیوی کی طرف دیکھ کر شہوار احمد کو کہا میں تو آپ کو بہت بڑا بزنس مین سمجھتا تھا لیکن حیرت ہے آپ مجھے اس دو ٹکے کی عورت کا پچاس ملین دے رہے تھے تب وہ مظلوم نہیں بہت سمجھ دار لگا اس ایک جملے نے ان دونوں کو واقعی دو کوڑی کا کر دیا اور شائد یہی وجہ تھی جو خواتین اس کو اپنی ذلت سمجھ بیٹھیں بلکہ ایک محترمہ تو رٹ دائر کرنے عدالت بھی پہنچ گئیں اب اس کو ڈرامے کی ریٹنگ بڑھانے کا حربہ کہیں یا واقعی یہ ڈرامہ عورت کی تذلیل بنا اس بات کو چھوڑ دیں ڈرامے کا اینڈ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا مجھے تو اندازہ ہو گیا تھا اور یہ بہت اچھا اینڈ تھا آج کے اس دور میں محبت بھی صرف چار دن کی چاندنی بن گئی ہے جس کے بعد ایک طویل اندھری رات ،اور اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ہمارا میڈیا ہے جس نے ہر رشتے کے درمیان ایک نفرت کی دیوار کھڑی کر دی ہے اونچے محلات ،خوبصورت ریسٹوران چمکیلے سٹائلش ملبوسات ،انواع و اقسام کے کھانے سٹائلش کراکری ،مہنگے بوتیکس اور ارزاں عورت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب یہ عورت خوابوں پہ بک جاتی ہے کوئی کہاں تک ان فریبوں سے بچ سکتا ہے ؟اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ غیر ملکی ”این جی اوز” جو اس نفرت کی دیوار کو جو عورت اور مرد کے درمیان کھڑی ہے اس کو مزید اونچا کرتی رہتی ہیں اٹھو اپنے حق کے لیے کھڑی ہو جائو ،کیوں لات جوتا کھاتی ہو کیوں اس مرد کی اولاد کو جنم دیتی ہو پالتی ہو جو تمھاری ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا اور سب تو نہیں مگر ایک کثیر تعداد ان کے جھانسے میں آ جاتی ہے ملک میں طلاق کی شرح بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ اب صرف روٹی کپڑا ہی ضرورت نہیں رہا سامان تعیش بھی ضرورت بن چکا ہے۔
ایک دمی نے سوال کیا کیا تھا جب عورت اپنے شوہر اور بچوں کے لیے گھر کا کام کرے تو باندی سمجھتی ہے خود کو لیکن وہی عورت جب دفتر میں ایک غیر مرد کی سیکرٹری بن کر اس کے ایک اشارے پر اس کا ہر کام کرے تو خود کو کوئی اونچی چیز سمجھتی ہے کیوں ؟ آخری سین میں دانش جب گرا ہوتا ہے تین بار کہتا ہے مجھے چھونا نہیں مجھے چھونا نہیں کیونکہ وہ ڈیزرو کرتا ہے کہ جو عورت بغیر شادی کے ایک غیر مرد کے ساتھ اتنے مہینے گذار کر اس لیے لوٹ آئی ہے کہ اس دوسرے شخص کی بیوی نے اسے دھکے دیکر نکال دیا ورنہ وہ تو اپنے بچے کو بھی بھول کر چلی گئی صرف عیش و عشرت کی زندگی کے لیے ،حالانکہ سب عورتیں بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے کتابوں کی دکان کے باہر میرے میاں گاڑی کھڑی کر کے دکان سے کچھ لینے گئے تو اس دکان سے ایک میاں بیوی اور ایک بچہ باہر آئے بچہ کہہ رہا تھا مما مجھے لنچ بکس بھی چاہیے ماں نے کہا بیٹا اگلے ماہ لے لینا ابھی سارے پیسے کتابوں میں لگ گئے ہیں۔
اتنی مہنگی بکس اور کاپیاں ہیں اچانک اس نے اپنے ہاتھ میں موجود ڈائری کی طرف دیکھا اور ابھی آئی کہہ کر واپس دکان میں چلی گئی واپس آئی تو ڈائری کی بجائے لنچ بکس اس کے ہاتھ میں تھا ،اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی قربانیاں اکثر مائیں دیتی ہیں کہ ان کی اولاد کو ترسنا نہ پڑے لیکن ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور پھر ایسا مرد جو اپنا سب کچھ اسی ایک عورت سے وابستہ کر لیتا ہے ایسے مرد بھی ہیں گو کم ہیں دانش نے مردوں کی نمائیندگی نہیں کی اس ایک مرد کی کہانی ہے جو اپنے رقیب کے منہ سے صرف یہ سن کر ہار مان لیتا ہے کہ وہ اس کی بیوی کو وہ سب کچھ دے سکتا ہے جو وہ اسے آٹھ سال بعد بھی نہیں سکا وہ غصے میں نہیں آتا اسے غیرت کے نام پر قتل نہیں کرتا خود بدنام ہوتا ہے مکے کھا کر آتا ہے مگر بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھاتا اس بیوی کے لیے کرپشن پر بھی راضی ہو جاتا ہے اور یہ میں کہتی ہوں کہ ھنڈرڈ پرسینٹ کرپشن مرد صرف ان عورتوں کے لیے کرتے ہیں وہ عورت بیوی ہو یا محبوبہ ،اس کی خواہشات پوری کرنے کے لیے آمدنی سے زیادہ خرچ کے لیے وہ حرام مال کو جائز کر لیتا ہے۔
اگر ہر عورت اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلائے تو کوئی وجہ نہیں مرد اس دلدل میں اترے ہی نا اللہ نے عورت سے بے انصافی نہیں کی اللہ نے مرد کو قوی اور عورت کو نازک بنایا اگر دونوں ہی قوی ہوتے تو کیا ہوتا میں تو یہ بھی سوچتی ہوں اللہ نے ایک آدم کے لیے ایک ہی حوہ بنائی چار کیوں نہیں بنائیں ؟یہ جو مردوں کا اسلام عورت کے فرائض اور چار شادیوں تک محدود ہو جاتا ہے اس نے بھی بڑی خرابیاں پیدا کی ہیں اسلام کی ساری خوبصورت تعلیم ایک طرف رکھ کر جب اسی ایک نقطے کو پکڑ لیتے ہیں تو عورت خود بخود مظلوم بن جاتی ہے لیکن دانش ایسا مرد نہیں تھا اس لیے یہ کردار امر ہو گیا وہ امیر تو ہو گیا مغرور نہیں ہوا اچھا گھر لے لیا دوسری عورت نہیں لایا ،اکیلا ہو گیا مگر اپنے بچے کی تعلیم سے غافل نہیں ہوا ،ٹیچر ہانیہ سے ملتا مگر اسے جھوٹے خواب نہیں دکھاتا ،بیٹے سے دل کی ہر بات کرتا مگر اسے اس کی ماں کی برائیاں بتا کر متنفر نہیں کرتا ،اپنی کم آمدنی میں بھی اسے اپنی بیوی کی خواہشوں کا خیال ستاتا ہے ،ایسے مرد کہاں ہوتے ہیں۔
لیکن کوئی نہ نہ کوئی ایسا ضرور ہوگا ،دنیا اچھے انسانوں سے خالی نہیں ۔۔
رہا یہ سوال کہ عورت مرد کی بے وفائی بھلا دیتی ہے تو مرد کیوں نہیں ؟یہی تو فرق ہے عورت اور مرد میں ،اس پر سوال ہونا ہی نہیں چاہیے مرد بیک وقت چار شادیاں کر سکتا ہے عورت نہیں کر سکتی کیونکہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے یہ فطرت انسانی ہے کہ مرد کے دل میں عورت اور عورت کے دل میں مرد کی محبت ڈالی ہے لیکن اس کو نکاح کے ذریعے پاکیزگی سے پورا کرنے کی تاکید کی ہے ورنہ نر مادہ تو جانوروں اور پرندوں میں بھی ہوتے ہیں انسان کو اشرف المخلوقات کیوں بنایا ؟ تاکہ وہ اپنی عقل اور علم سے اللہ کے احکامات کی تابعداری کرے عورت کو مرد کی ننگ و ناموس ،مال و دولت اور اولاد کا محافظ و مہتمم بنایا اگر عورت ان کی حفاظت نہیں کرتی تو وہ اپنے حقوق کھو دیتی ہے پھر اس میں اور بازاری عورت میں کوئی فرق نہیں رہتا اس کی کوئی عزت نہیں کرتا اور جس عورت کی عزت نہ ہو اسے کوئی مرد اپنی ناموس کیسے سونپ سکتا ہے اس لیے عورت کی بے وفائی اس کے لیے زہر قاتل ہوتی ہے !