افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی جنگی جہازوں نے افغانستان میں سن دو ہزار انیس کے دوران اتنے بم پھینکے، جن کی گزشتہ ایک عشرے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پچھلے برس کی پہلی ششماہی میں افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اکتیس فیصد اضافہ ہوا تھا۔
امریکی ایئر فورس کی مرکزی کمان کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی جنگی طیاروں نے سن دو ہزار انیس کے دوران افغانستان میں کُل سات ہزار چار سو تیئیس بم گرائے اور گزشتہ دس برسوں کے دوران یہ سب سے زیادہ سالانہ تعداد تھی۔ اس سے قبل سن دو ہزار نو میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج نے ہندوکش کی اس ریاست میں چار ہزار ایک سو سینتالیس بم پھینکے تھے۔ اس وقت افغانستان میں تقریباﹰ ایک لاکھ امریکی فوجی تعینات تھے اور سابق صدر باراک اوباما نے طالبان کی طرف سے مسلح مزاحمت کے خاتمے کے لیے زمینی فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر رکھا تھا۔
سن دو ہزار سولہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے امریکا نے افغانستان میں بمباری کا سلسلہ تیز کر رکھا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان پابندیوں کو ختم کر دیا تھا، جن کے تحت فضائی بمباری سے پہلے ‘وسیع معلومات‘ کا دستیاب ہونا ضروری ہوتا تھا تاکہ عام شہری ایسی بمباری کی زد میں نہ آئیں۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں متعدد مرتبہ اس حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ افغانستان بھر میں امریکی اور افغان فورسز کے بڑھتے ہوئے فضائی حملوں کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ برس اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار انیس کی پہلی ششماہی کے دوران افغان اور امریکی فورسز کی فضائی بمباری میں سات سو سترہ شہری مارے گئے تھے۔ سن دو ہزار اٹھارہ کی پہلی ششماہی کی نسبت یہ تعداد اکتیس فیصد زیادہ تھی۔
امریکا کی جانب سے اس فضائی بمباری میں شدت ایک ایسے وقت پر لائی جا رہی ہے، جب واشنگٹن حکومت اور افغان طالبان آپس میں امن مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے بھی اپنے حملوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز پر طالبان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ امریکا کے ساتھ جنوری کے اختتام تک کسی ممکنہ معاہدے تک پہنچا جا سکتا ہے اور اسی لیے افغان طالبان نے اپنے مسلح حملوں میں کمی کا عندیہ بھی دیا تھا۔