کرونا(corona) لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تاج یا ہالہ کے ہوتے ہیں۔ چونکہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کورونا کے مشابہ ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام “کرونا وائرس” رکھا گیا ہے۔سب سے پہلے اس وائرس کی دریافت 1960 ء کی دہائی میں ہوئی تھی جو سردی کے نزلہ سے متاثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے متعدی ہوکر داخل ہوا تھا۔ اس وقت اس وائرس کو ہیومن (انسانی) کرونا وائرس E229 اور OC43 کا نام دیا گیا تھا، اس کے بعد اس وائرس کی اور دوسری قسمیں بھی دریافت ہوئیں۔عالمی ادارہ صحت کے ذریعہ نامزد کردہ nCovـ2019 نامی کورونا وائرس کی ایک نئی وبا 31 دسمبر 2019ء سے چین میں عام ہوئی۔ جو کہ آہستہ آہستہ وبائی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ وائرس اس لئے خطرناک ہے کہ یہ انسان سے انسان کے درمیان پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کرونا وائرس چین کے ایک وسطی شہر ووہان میں پہلی بار منظر عام پر آیا تھا۔ یہ وائرس نمونیا کے طرز پر سانس کی انفیکشن کا سبب بنتا ہے اور اب تک چین میں اس وائرس سے متاثرہ سینکڑوں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔اس وائرس سے متاثر افراد کی تصدیق دنیا بھر کے ڈیڑھ درجن ممالک میں ہو چکی ہے جن میں جنوبی کوریا، تائیوان، تھائی لینڈ، نیپال، ویت نام، سعودی عرب، سنگاپور، امریکا، فرانس اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر متاثرین یا تو چینی افراد ہیں یا وہ لوگ جو حال ہی میں چینی شہر وویان گئے تھے۔
امریکا اور کینیڈا نے اپنے شہریوں کو چینی صوبے ہوبائی جانے سے خبردار کیا ہے۔ اسی صوبے میں وویان شہر واقع ہے جو کرونا وائرس سے شدید متاثر ہے۔چین میں کرونا وائرس سے جہاں ہلاکتیں ہو رہی ہیں وہیں چین کی معیشت پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔چین میں مختلف سفری پابندیوں اور ملکی کرنسی یوآن کی قدر میں کمی کے باعث پیدا ہونے والی معاشی صورت حال پر تاجر پریشان ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں بھی کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور حکام نے خطرہ بڑھنے کا عندیہ دیا ہے۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کرونا وائرس کے مزید واقعات سامنے آ سکتے ہیں۔ دراصل چین میں کرونا وائرس نے چین سمیت دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق میڈیکل کی دنیا میں سامنے آنے والے ہر وائرس کے پیچھے انسانوں کی بالواسطہ اور بلاواسطہ غلطیاں ہی ہوتی ہیں، جو فطرت اور خدا کے خلق کردہ فطری قوانین میں دست اندازی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ماہرین کے مطابق چمگاڈر کا سوپ پینے اور دیگر زہریلے و گندے کیڑے مکوڑوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنانے سے یہ جان لیوا مرض پھیلا ہے ۔ بلاشبہ اس وائرس نے وحشت پھیلا دی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسلام سے دوری اور قدرت کے بنائے گئے قوانین کو توڑنے سے ہی دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ۔ صرف کرونا ہی نہیں کانگو ، ایبولا ، اور اب افریقہ میں ٹڈی دل کا حملہ یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں جو ہمیں وارننگ دے رہی ہیں آئو فطرت کی طرف لوٹ آئے اور اسلام چونکہ دین فطرت ہے اسی لئے ہماری نجات و فلاح صرف اسلامی تعلیمات کو اپنانے میں ہی ہے۔
کرونا وائرس کی فیملی سے تعلق رکھنے والا یہ ایسا نیا وائرس ہے جس سے انسانوں کا پہلے کبھی سامنا نہیں ہوا۔ دیگر کرونا وائرسز کی طرح یہ بھی جانوروں سے منتقل ہوتا ہے۔ اس کے بہت سے متاثرین یا تو ووہان کے مرکز میں واقع مچھلی و دیگر سمندری غذا کی مارکیٹ میں کام کرتے تھے یا وہاں سے اکثر خریداری کرتے تھے۔ اس مارکیٹ میں زندہ یا تازہ کٹے ہوئے جانور بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ نئے اور پریشان کن وائرسز عموماً جانوروں میں ہی پیدا ہوتے ہیں جس کی مثالیں ایبولا اور فلو ہیں۔
وویان والے وائرس کی علامات اس واِئرس سے نمونیا ہوجاتا ہے۔ وہ جو اس کے باعث بیمار ہوتے ہیں انہیں کھانسی، بخار اور سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے۔ شدید صورتحال میں اعضا فیل بھی ہوسکتے ہیں۔ چوںکہ یہ وائرل نمونیا ہوتا ہے اس وجہ سے اس میں اینٹی بایوٹک بھی کوئی اثر نہیں کرتی۔ فلو میں استعمال کی جانے والی اینٹی وائرل دوا بھی بے سود ہوتی ہے۔ اگر لوگ اس کے باعث اسپتال میں داخل ہوجائیں تو پھر وہ پھیپھڑوں، دیگر اعضاء اور رطوبتوں کو بحال رکھنے کیلئے سپورٹ لے سکتے ہیں۔ اس مرض سے بحالی اس بات پر منحصر ہے کہ مریض کے جسم کا مدافعتی نظام کتنا مضبوط ہے۔ بہت سے ایسے لوگ جو اس وائرس کا شکار ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ان کی صحت پہلے سے ہی کمزور تھی۔چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ ایک متعدی یعنی ایک سے دوسرے کو لگنے والا وائرس ہے ۔ فی الحال کوئی اندازہ نہیں کہ یہ نیا کرونا وائرس کس حد تک خطرناک ہے۔ فلو کے برخلاف اس سے بچاؤ کیلئے کوئی ٹیکہ بھی نہیں۔ ایسی صورت میں ان لوگوں کا اس وائرس سے بچنا خاصا مشکل ہوگا جو عمر رسیدہ ہوں یا انہیں پہلے سے ہی سانس کی تکلیف یا قوت مدافعت کی کمی کا سامنا ہو۔ ہاتھ دھوتے رہنا اور ایسے وائرس کے شکار لوگوں سے فاصلہ رکھنا احتیاطً ضروری ہوگا۔ ایک اور احتیاطی تدبیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فلو کا ٹیکہ لگوا لیا جائے۔ اب تک اس وائرس نے عمر رسیدہ افراد کوشدید متاثر کیا ہے اور کچھ حد تک بچے بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ دیگر ممالک میں اس وائرس کا پھیلنا تشویشناک تو ہے لیکن یہ غیر متوقع نہیں تھا۔
چین میں کورونا وائرس نے خطرناک شکل اختیارکر لیا ہے اور بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد کے اعداد و شمار تیزی سے بڑھ ر ہے ہیں جسے ذہن میں رکھتے ہوئے کئی ممالک نے چین کے سفر کے لئے اپنے اپنے ملک کے شہریوں کو الرٹ جاری کیا ہے۔ اس وائرس کے امریکہ، جنوبی کوریا، جاپان، سنگاپور، نیپال میں بھی معاملہ سامنے آئے ہیں۔کرروناوائرس کی روک تھام کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے اور روزانہ اس کے نئے کیس درج کئے جا رہے ہیں۔ فرانس نے بھی اپنے ملک میں کوروناوائرس کی تصدیق کردی ہے، جس سے 3 افراد اب تک بیمار ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ میں کوروناوائرس سے اب تک 2 افراد کو اسپتال پہنچا چکا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں اس وائرس کا پہلا کیس درج کیا گیا تھا جس کے بعد چین میں کروناوائرس خطرناک رخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہانگ کانگ میں کروناوائرس کا پہلا معاملہ 19جنوری کو ٹرین سے چین سے آئی 62سالہ خاتون میں پایا گیا تھا۔ اس خاتون نے 20جنوری کو بخار اور کھانسی کی شکایت کے بعد اسپتال میں جانچ کرائی تو کروناوائرس کی علامات پائی گئیں۔ اس کے بعد اس خاتون کے گھر کے دیگر افراد میں بھی اس انفیکشن کی علامات پائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ووہان سے 22جنوری کو ہانگ کانگ آئے 62سالہ اور 63سالہ ایک جوڑے میں بھی اس انفکیشن کی علامات پائی گئی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت(WHO) کے مطابق، کروناوائرس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ان میں سے چھ اور اس حالیہ وائرس کو ملا کر سات ایسی قسمیں ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کی وجہ سے بخار ہوتا ہے۔ سانس کی نالی میں شدید مسئلہ ہوتا ہے۔ 2002 ء میں چین میں کروناوائرس کی وجہ سے 774 افراد ہلاک ہوئے اور مجموعی طور پر اس سے 8098 افراد متاثر ہوئے تھے۔کرونا وائرس کے جنیاتی کوڈ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ رسپائریٹری سنڈروم (سارس) سے ملتا جلتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق انسانوں کو چاہیے کہ احتیاطی تدابیر کیے بغیر جانوروں کے نزدیک نہ جائیں اور گوشت اور انڈے پکانے میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ٹھیک سے تیار کیے گئے ہیں اور اس کے علاوہ ان افراد سے دور رہیں جنھیں نزلہ یا اس جیسی علامات ہوں۔اگرچہ کورونا وائرس کی وجہ سے چین کے لیے کئی عالمی پروازیں معطل ہیں مگر اس کے باوجود نئے قمری سال کی تعطیلات کے موقعے پر لاکھوں چینی اندرون اور بیرون ملک سفر کریں گے جس کے نتیجے میں اس وائرس کے مزید پھیلنے کا اندیشہ ہے۔عالمی ادارہ صحت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ نیا کورونا وائرس ”چین میں ایمرجنسی کی حالت” کی نشاندہی کرتا ہے تاہم عالمی سطح پر اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہفتہ کو لندن کے امپیریل کالج میں متعدی بیماریوں کے ماہرین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ وباء ایک عالمی صحت کے واضح خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔