حضرت عبدالمطلب کو یہ حکم اسوقت دیا گیا جب وہ اپنی منّت بھول چکے تھے ـ پہلے خواب میں ان سے کہا گیا ” منّت پوری کرو ” انھوں نے ایک مینڈھا ذبح کرکے غریبوں کو کھلادیا ” پھر خواب آیا ” اس سے بڑی پیش کرو ” اس مرتبہ انھوں نے ایک بیل ذبح کردیا ـ خواب میں پھر یہی کہا گیا اس سے بھی بڑی پیش کرو ـ اب حضرت عبدالمطلب نے اونٹ ذبح کیا ـ پھر خواب آیا اس سے بھی بڑی چیز پیش کرو ـ آپ نے پوچھا ” اس سے بھی بڑی چیز کیا ہے ؟” تب کہا گیا:
” اپنے بیٹوں میں سے کسی کو ذبح کرو جیسا کہ تم نے منّت مانی تھی ” اب حضرت عبدالمطلب کو اپنی منّت یاد آئی ـ اپنے بیٹوں کو جمع کیا ـ ان سے منّت کا ذکر کیا ـ سب کے سر جھُک گئے ” کون خود کو ذبح کروائے ” آخر تاجدار ختم ِ نبوت حضرت محمد ۖ کے والدِ محترم حضرت عبداللہ بولے ” ابّاجان آپ مجھے ذبح کردیں ”
حضرت عبداللہ سب سے چھوٹے تھے ـ سب سے خوبصورت تھے ـ سب سے ذیادہ محبّت بھی حضرت عبدالمطلِّب کو آپ سے تھی لہٰذا انھوں نے قرعہ اندازی کرنے کا ارادہ کیا ـ تمام بیٹوں کے نام لکھ کر قرعہ ڈالا گیا ـحضرت عبداللہ کا نام نکلا اب انھوں نے چُھری لی ” حضرت عبداللہ کو بازو سے پکڑکرانھیں ذبح کرنے کے لیے نیچے زمین پر لٹادیا۔
جیسے ہی حضرت عبدالمطلب بنے بیٹے ( حضرت عبداللہ )کو لٹایا ” عبّاس سے ضبط نہ ہوسکا, فوراً آگے بڑھے اور بھائی کو کھینچ لیا ” اس وقت یہ خود بھی چھوٹے سے تھے ” ادھر باپ نے عبداللہ کو اپنی طرف اور عباس بیٹے نے اپنی طرف کیا۔اسی دوران حضرت عبداللہ کے چہرے پر خراشیں بھی آئیں ” ان خراشوں کے نشانات مرتے دم تک باقی رہے ـاسی دوران بنو مخزوم کے لوگ آگئے انھوں نے حضرت عبدالمطلب سے کہا: ”آپ اس طرح بیٹے کو ذبح نہ کریں ”اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے بیٹے کا فدیہ دے دیں !
فدیہ کی ترکیب یہ بتائی گئی کہ کاغذ کے ایک کاغذ پر دس اونٹ لکھے جائیں, دوسرے پر عبداللہ کا نام لکھا جائے, اگر دس اونٹ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ قربان کردئے جائیں, اگر عبداللہ والی پرچی نکلے تو دس اونٹ کا اضافہ کردیا جائے ـ پھر بیِس اونٹ والی پرچی اور عبداللہ والی پرچی ڈالی جائے ـ اب اگر بیِس اونٹ والی پرچی نکلے تو بیِس اونٹ قربان کردئے جائیں, ورنہ دس اونٹ اور بڑھادئیے جائیں, اس طرح دس دس کرکے اونٹ بڑھاتے جائیں ـ
حضرت عبدالمطلب نے ایسا ہی کیا ہے ” دس دس اونٹ بڑھاتے چلے گئے ” ہر بار حضرت عبداللہ کا نام نکلتا چلا گیا, یہاں تک اونٹوں کی تعداد سو تک پہنچ گئی ـجب سو انٹوں والی پرچی نکلی تو حضرت عبدالمطلب نے سکھ کا سانس لیا۔ اپنی تسلی تشفی کے لئے بار بار حضرت عبداللہ اور سو اونٹوں والی پرچیوں کا قرعہ نکالا گیا ۔ لیکن اب ہر بار سو اونٹوں والی پرچی نکلتی رہی ـ اس طرح حضرت عبداللہ کی جان کے بدلے سو اونٹ قربان کئیے گئے ـ عبدالمطلب کو اب پورا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالٰی نے عبداللہ کے بدلہ سو اونٹوں کی قربانی منظور کرلی ہے ـ انھوں نے کعبے کے پاس سو اونٹ قربان کئیے اور کسی کو کھانے سے نہ روکا ” سب انسانوں, جانوروں اور پرندوں نے ان کو کھایا ـ
امام زہری کہتے ہیں کہ حضرت عبدالمطلِّب پہلے آدمی ہے جنہوں نے آدمی کی جان کی قیمت سو اونٹ دینے کا طریقہ شروع کیا ـ اس سے پہلے دس اونٹ دیے جاتے تھے ـ اس کے بعد یہ طریقہ سارے عرب میں جاری ہوگیا ـ گویا قانون بن گیا کہ آدمی کا فدیہ سو اونٹ ہے ـ نبی کریمۖ کے سامنے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے اس فدیہ کی تصدیق فرمائی، یعنی فرمایا کہ یہ درست ہے اور اسی بنیاد پر نبی کریمۖ فرماتے ہیں:
میں دو ذبیحوں یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت عبداللہ کی اولاد ہوں حضرت عبداللہ قریش میں سب سے زیادہ حسین تھے ان کا چہرہ روشن ستارہ کی ماند تھا قریش کی بہت سی لڑکیاں ان سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر حضرت عبداللہ کی حضرت آمنہ سے شادی ہوئی ۔
حضرت آمنہ وہب بن عبدمناف بن زہرہ کی بیٹی تھیں شادی کے وقت حضرت عبداللہ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔یہ شادی کے لیئے اپنے والد کے ساتھ جارہے تھے راستہ میں ایک عورت کعبہ کے پاس بیٹھی نظر آئی یہ عورت ورقہ بن نوفل کی بہن تھی۔ورقہ بن نوفل قریش کے ایک بڑے عالم تھے۔ورقہ بن نوفل سے ان کی بہن نے سن رکھا تھا کہ وقت کے آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے اور انکی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہوگی کہ ان کے والد کے چہرے میں نبوت کا نور چمکتا ہوگا۔جونہی ورقہ بن نوفل کی بہن نے حضرت عبداللہ کو دیکھا فوراً اس کے ذہن میں یہ بات آئی، اس نے سوچا ہونہ ہو یہ وہ وہ شخص ہے جو پیدا ہونے والے نبی کے باپ ہوں گے۔چنانچہ اس نے کہا: ”اگر تم مجھ سے شادی کرلو تو میں بدلہ میں تمہیں اتنے ہی اونٹ دوں گی جتنے تمہاری جان کے بدلے میں ذبح کئے گئے تھے۔”
اس پرحضرت عبداللہ نے جواب دیا: ”میں اپنے باپ کے ساتھ ہوں۔ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔نہ ان سے الگ ہوسکتا ہوں اور میرے والد باعزت آدمی ہیں، اپنی قوم کے سردار ہیں۔” بہر حال انک شادی حضرت آمنہ سے ہوگئ۔اپ قریش کی عورتوں میں نسب اور مقام کے اعتبار سے افضل تھیں ـ
حضرت آمنہ، حضرت عبداللٰہ کے گھر آگئیں ـ آپ فرماتی ہیں: ”جب میں ماں بننے والی ہوئی تو میرے پاس ایک شخص آیا، یعنی ایک فرشتہ انسانی شکل میں آیا ـ اس وقت میں جاگنے اور سونے کے درمیانی حالت میں تھی(عام طور پر اس حالت کو غنودگی کہاجاتاہے) ـ اس نے مجھ سے کہا: ”کہا تمہیں معلوم ہے، تم اس امت کی سردار اور نبی کی ماں بننے والی ہو۔” اس کے بعد وہ پھر اس وقت آیا جب نبی صلی اللٰہ علیہ وسلم پیدا ہونے والے تھے ـ اس مرتبہ اس نے کہا: ”جب تمہارے ہاں پیدائش ہو تو کہنا: ”میں اس بچے کے لیے اللٰہ کی پناہ چاہتی ہوں، ہر حسد کرنے والے کے شر اور برائی سے ـ پھر تم اس بچے کا نام محمد رکھنا، کیوں کہ ان کا نام تورات میں احمد ہے اور زمین اور آسمان والے ان کی تعریف کرتے ہیں، جب کہ قرآن میں ان کا نام محمد ہے، اور قرآن ان کی کتاب ہے ـ ”(البدایہ والنہایہ)
ایک روایت کے مطابق فرشتے نے ان سے یہ کہا: ”تم وقت کے سردار کی ماں بننے والی ہو، اس بچے کی نشانی یہ ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک نور ظاہر ہوگا، جس سے ملک شام اور بصرٰی کے محلات بھر جائیں گے ـ جب وہ بچہ پیدا ہوجائے گا تو اس کا نام محمدۖ رکھنا، کیوں کہ تورات میں ان کا نام احمد ۖہے کہ آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کرتے ہیں، اور انجیل میں ان کا نام احمد ۖہے کہ آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کرتے ہیں اور قرآن میں ان کا نام محمد (ۖ) ہے