وزیراعظم عمران خان صاحب اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی چھتری تلے ملک میں ترقی کا جو انقلاب لانا چاہتے تھے یقین جانیئے وہ صرف خیالی پلاؤ کے سوا کچھ نہیں تھا۔خیبر پختونخواہ میں ان کی ساڑھے چھ جبکہ وفاق اور پنجاب میں ڈیڑھ سالہ کارکردگی سے اتنا تو ثابت ہو گیا کہ عمران خان صاحب گفتار کے غازی بن کرایک مجمع تو لوٹ سکتے ہیں لیکن حقیقی اور مثبت تبدیلی کبھی نہیں لا سکتے اور اس کی سب سے بڑی وجہ عمران خان خود ہیں جو صرف ”میں” تک محدود ہیں۔عمران خان کی تقریروں، حکومتوں کے خلاف مہمات اور پی ٹی آئی کے سارے انتخابی منشوروں کا جائزہ لیا جائے یا پھر خیبرپختونخواہ، پنجاب اور وفاق میں ان کی کارکردگی سمیت ملکی سیاسی نظام میں بہتری اورعوامی شعور بیدار کرنے میں ان کے کردار کو سیاسی جمہوری اصولوں یا معاشری اقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خود کو عوام کا مسیحا باور کرانے والے عمران خان تو درحقیقت ان پر قہر، آفت اور عذاب الہی بن کر ٹوٹے ہیں۔
پہلو تو خیر بہت ہیں تاہم ان میں تعلیم، صحت اور معیشت تین ایسے پہلو ہیں جن کا جائزہ لینے کے بعد حکومت کی کارکردگی کو کسی حد تک تسلی بخش یا غیر تسلی بخش قرار دیا جا سکتا ہے۔ میں نے حکومت کو عوام کے لیے آفت قراردیا ہے تو اس رائے کی بنیاد بھی حکومت کی ان تین شعبوں میں کارکردگی ہے۔ آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔معاشی حالت سے کیا مراد ہے؟ کسی ملک یا فرد کا اپنے محدود وسائل استعمال میں لاکر اپنی ضروریات پوری کرنا معاشی حالت کہلاتا ہے۔مثال کے طور پر میری آمدن اتنی قلیل ہو جس سے میری ضروریات بھی پوری نہ ہو تو یہ میری کمزورمعاشی حالت کہلائے گی جبکہ اس کے بالکل برعکس ضروریات پورا کرنے کے لیے درکار خرچے سے آمدن جتنی زیادہ بڑھے گی تو وہ معاشی حالت اتنی ہی بہتر تصور کی جائے گی۔ پہلی حالت میں انسان کے لیے گزر بسر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے جبکہ دوسری حالت میں وہ دوسرے لوگوں کی وسیع پیمانے پر مدد کرنے کا اہل ہوتا ہے۔
پاکستان کی معاشی حالت کیا ہے؟ برطانیہ کے سینٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ (سی ایس بی آر) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 193 ممالک میں پاکستان سال 2019 میں معاشی لحاظ سے 44 ویں معاشی طاقت ہے اور 2020 میں اسی پوزیشن پر رہے گا۔ اسی تھنک ٹینک رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں پاکستان 41 ویں پوزیشن پر تھا۔ مشرف دور کے اختتام پر پاکستان 50ویں اور 2013 میں 48 ویں نمبر پر تھا جسے مسلم لیگ ن 2013 سے 2018 کے دوران 41 ویں نمبر پر لے آئی۔انگریزی اخبار ڈان نے ادارہ شماریات پاکستان کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ 6 سال بعد مہنگائی کی شرح 10 فی صد سے تجاوز کر گئی اور 2019 کے اختتام پر یہ شرح 12 فی صد تک جا پہنچی ہے جبکہ ورلڈ بینک کی 2019 میں ایک پیشن گوئی کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح سال 2020 میں 13 اعشاریہ پانچ تک پہنچ جائے گی۔
مہنگائی کے بے قابو جن کا براہ راست اثر یہ ہے کہ عام لوگ ضرورت کی اشیاء تک خریدنے سے قاصر آگئے ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے اگست 2018 سے ستمبر 2019 تک پندرہ ماہ میں مجموعی طور پر 9 کھرب کے قرضے حاصل کیے ہیں، قرضوں کا سلسلہ نہ رکنے کے بعد ملک کا قومی قرضہ ملکی پیداوار کے 70 فیصد سے بھی تجاوزکر گیا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔اسی طرح ڈالر کو لیجئے جوسال 2019 میں 150 سے تجاوز کر گیا، سونے کی قیمتوں کو پر لگ گئے، 10 لاکھ لوگوں کے بے روزگار ہونے سے بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا۔
صنعتی ترقی 2018 میں 4 اعشاریہ سے زیادہ تھی اور2019 کے اختتام تک صرف 2 اعشاریہ تک بھی نہ پہنچ سکی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری جون 2019 تک صرف 1 اعشاریہ چارفیصد رہی حالانکہ 2017ـ2018 میں یہ شرح 3 اعشاریہ سے زیادہ تھی جبکہ وفاقی وزیر حماد اظہر نے ایوان کو بتایا ہے کہ ٹیکس محصولات کا ٹارگٹ حاصل نہ کیا جا سکا۔دوسری جانب حکومت معیشت کو قابو کرنے کے دعوے کر رہی ہے اوراس میں شک بھی نہیں کہ حکومت اقدامات کر رہی ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر بنانے کے جو وعدے کیے تھے وہ خواب کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر میں 3 ارب83 کروڑ اضافے سے معیشت کو مستحکم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پیرس کے ریسرچ ادارے اپسوس کے مطابق پاکستان میں حکومت کی معاشی پالیسیوں پر صارفین کے اعتماد میں کمی آرہی ہے۔اس سروے میں 2900 افراد نے حصہ لیا جن میں 79 فیصد نے مقامی اور قومی معیشت سے متعلق مایوسی کا اظہار کیا۔مذکورہ بالااعداد وشمار سے یہ بات تو بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت معاشی لحاظ سے کمزور پوزیشن پر ہے اور عوام کی بے چینی عین فطری ہے۔ظاہر ہے جب قرضوں، مہنگائی، بیروزگاری، ڈالر کی اونچی اڑان پر قابو نہ پایا جا سکے اورمسلسل غیر یقینی کی کیفیت برقرار رہے تو عوام مایوسی اور تحفظات کا اظہار تو کریں گے۔تعلیمی شعبے کا جائزہ لیں تو یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ تعلیمی انقلاب برپا کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تعلیمی بجٹ کو ہی کم کر رہی ہے۔ ڈان اخبار کے مطابق سال 2018ـ19 کے مقابلے میں 2019ـ20 کے لیے تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ کمی کی گئی ہے جس سے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے پرائمری تعلیم کے لیے بجٹ 10120 ملین سے کم کرکے 2831 ملین کر دیا ہے جبکہ سیکنڈری تعلیم کے لیے بجٹ12358ملین سے کم کرکے6718 ملین کر دیا ہے۔مسلم (ن) کی حکومت کے خاتمے پر بی بی سی نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ پاکستان تعلیم پر اوسطاً 13فیصد خرچ کرتا ہے جو کہ عالمی سطح پر ممالک کے مقابلے میں صرف ایک فیصد کم ہے۔عالمی سطح پر ممالک تعلیم پر اوسطاً 14 فیصد خرچ کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم پر خاطر خواہ خرچ کرنے کے باوجود کوئی بہتری نظر نہیں آتی تو اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس خطیر رقم کازیادہ تر حصہ اساتذہ کی تنخواہوں اور پنشن کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے۔
تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود ملک میں دو کروڑ سے زیادہ بچے سکول نہیں جاتے اور جو جاتے ہیں تو ان کے بولنے، پڑھنے،لکھنے اور سمجھنے سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیمی نظام کا معیار کیا ہے؟صحت کی بات ہی کیا کی جائے کیوں کہ جس ملک میں میڈیا پر قومی اور بین الاقوامی خبروں کے بعد سب سے زیادہ پولیو،ڈینگی،ریبیز اور ایچ آئی وی کیسز کا ہنگامہ ہو تو اس سے حالات کی نزاکت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔یہ مقام حیرت ہے کہ ہمارے ملک میں آج تک پولیو پر قابو نہیں پایا جاسکا، ادھر درجنوں لوگ کتے کے کاٹنے جبکہ ہزاروں ڈینگی سے جان کی بازی ہار گئے۔وزیراعظم عمران خان کی وہ تقریریں یاد آتی ہیں تو سوچ میں پڑھ جاتا ہوں کہ وہ عوام کدھر ہیں جن کو بنیادی انسانی حقوق دلوانے کے وہ بلند و باگ دعوے کرتے تھے۔
حال یہ ہے کہ 9 سال گزر گئے لیکن آج تک نیشنل ہیلتھ پالیسی مرتب نہ کی جاسکی، گزشتہ 10 سال میں مختلف امراض میں 100 فیصد اضافہ ہوا، سرکاری ہسپتالوں میں سہولتیں کم ہو کر 40 فیصد رہ گئیں، ہسپتالوں میں سامان ناکافی ہیں،مفت ادویات ختم، ڈاکٹرز کا فقدان ہے، عملے کی کمی ہے اور مشینری زیادہ تر خراب۔ان تمام چیزوں کو دیکھ کریہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے وژن کے مطابق عوام کی خدمت کررہے ہیں۔ میرے خیال میں خان صاحب سابق حکمرانوں ہی کی طرح عوام پر زمین تنگ کرنے کے کسی منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر عوام کاحال سابقہ ادوار سے زیادہ نہیں بلکہ کچھ تو بہتر ہونا چاہیئے تاکہ فرق واضح ہو۔ فی الحال تو فرق صرف یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان شائد عوام کی امیدوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔