بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے شہریت کے ترمیمی قانون کی مخالفت اور پر تشدد واقعات کی مذمت پر زبردست ہنگامے کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔
لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین با غ میں پرامن مظاہرین ملک کے آئین کو بچانے نکلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، ” یہ لوگ بھارت کے آئین کو ہاتھ میں لے کر احتجاج کررہے ہیں، قومی ترانہ گارہے ہیں، لیکن ان پر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ بھارت کے لوگوں کو بے دردی سے مارا جارہا ہے۔”
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے لوک سبھا میں کہا کہ، “ہم سب جامعہ کے بچوں کے ساتھ ہیں۔ یہ حکومت بچوں پرظلم کررہی ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ ایک بچے کی آنکھ چلی گئی، بیٹیوں کو مار رہے ہیں۔ لیکن انہیں کوئی شرم نہیں آتی۔”
اس سے قبل بی جے پی رہنما اور نائب وزیر خزانہ انوراگ سنگھ ٹھاکر بجٹ کے متعلق جیسے ہی ایک سوال کا جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے خلاف نعرے لگنے شروع ہو گئے: “انوراگ ٹھاکر شرم کرو، شرم کرو۔گولی مارنا بند کرو، دیش کو توڑنا بند کرو۔”
انوراگ ٹھاکر نے 27جنوری کو دہلی میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران ملک کے “غداروں کو گولی مارو” کے نعرے لگوائے تھے، جس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف دھرنے پر بیٹھے مظاہرین پر فائرنگ کے کم از کم تین واقعات پیش آچکے ہیں۔
بھارتی دانشوراور مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، “یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ آزادی کا نعرہ لگانے والوں کو غدار کہا جارہا ہے جب کہ یہ آزادی بھارت سے یا بھارت کے آئین سے نہیں بلکہ یہ آزادی بھوک، بے روزگاری، بیماری،نفرت، عناد اور فرقہ پرستی سے مانگی جارہی ہے۔ ان چیزوں سے آزادی مانگنا کس طرح غداری ہوسکتا ہے؟”
ان کا مزید کہنا تھا کہ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ زبان حکومت میں بیٹھے وہ لوگ استعمال کررہے ہیں جنہوں نے دستور پر ہاتھ رکھ کر امن و امان برقرار رکھنے کی قسم کھائی ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دھرنے پر بیٹھے مظاہرین پر فائرنگ کا تازہ واقعہ اتوار کو رات گئے پیش آیا۔
جامعہ کے طلبہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مظاہرے کے مقام سے چند قدم دور رات بارہ بجے کے قریب اسکوٹر پر سوار دو لوگ ہوا میں گولی چلا کر فرار ہوگئے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں جائے واقعہ پر کارتوس کے خول نہیں ملے ہیں لیکن وہ معاملے کی جانچ کرے گی۔
اس سے قبل ہندو شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے 30جنوری کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ کے ایک پرامن مارچ پر فائرنگ کردی تھی۔ اس فائرنگ میں جامعہ میں ایک کشمیر ی طالب علم زخمی ہوگیا تھا۔ پولیس کا دعوی ہے کہ حملہ آور نابالغ ہے اس لیے اسے جوینائل جسٹس بورڈ کی نگرانی میں رکھاگیا ہے۔
یکم فروری کو شاہین باغ میں مظاہرے کے مقام کے نزدیک ایک شخص نے ہوا میں گولیا ں چلائی تھیں۔ پولیس نے کپل گوجر نامی حملہ آور کو بعد میں قابو کرلیا تھا۔ پکڑے جانے کے دوران وہ “بھارت میں کسی اور نہیں چلے گی، صرف ہندوؤں کی چلے گی” کے نعرے لگاتا رہا۔
دہلی کے شاہین باغ میں خواتین گذشتہ پچاس دنوں سے زیادہ عرصے سے مسلسل دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک یہ متنازع قانون واپس نہیں لیا جاتا، ان کا مظاہرہ جاری رہے گا۔
ان کے مطابق مودی حکومت کے بعض وزراء نے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے لیکن کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔
شاہین باغ کی خواتین نے انوراگ ٹھاکر کے مبینہ اشتعال انگیز نعرے کے خلاف “دیش کے ان پیاروں پہ، پھول برساؤ ساروں پہ” کا جوابی نعرہ دیا ہے۔