کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی ریاست جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف مودی حکومت کی طرف سے ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ لگائے جانے پر اپوزیشن جماعتوں نے سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے ‘جمہوریت کا سب سے گھٹیا قدم‘ قرار دیا۔
اس سیاہ قانون کے تحت حکومت مقدمہ چلائے بغیر کسی شخص کو دو برس تک قید میں رکھ سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن نے اس قانون کی نکتہ چینی کی ہے جب کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے ’غیرقانونی قانون‘ قرار دیا ہے۔
دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کی طرف سے گذشتہ برس پانچ اگست کو جمو ں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دیے جانے کے بعد پانچ ہزار کشمیری سیاسی اور مذہبی رہنماؤں اور دیگر افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
مظاہروں میں حصہ نہ لینے اور حکومت کے خلاف بیانات نہیں دینے سمیت حکومت کی طرف سے عائد کردہ دیگر شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے ایک دستاویز(بانڈ) پردستخط کرنے کے بعد بعض رہنماوں کو رہا کردیا گیا لیکن 389افرادکے خلاف ’پی ایس اے‘ لگایا گیا ہے۔ ان میں اہم سیاسی جماعتوں کے چھ رہنما سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ، نیشنل کانفرنس کے رہنما علی محمد ساگر، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر سرتاج مدنی اور انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس چھوڑ کر سیاست میں داخل ہونے والے رہنما شاہ فیصل شامل ہیں۔
جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پانچ اگست سے نظر بند ہیں اور ان کی احتیاطی گرفتاری کے چھ ماہ مکمل ہونے کے چند گھنٹے قبل مودی حکومت نے کل دیر رات ان دونوں کے خلاف بھی ’پی ایس اے‘ لگا دیا۔
کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے اس اقدام کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر ’پی ایس اے‘ عائد کیے جانے کو جمہوریت کا سب سے گھٹیا قدم قرار دیتے ہوئے کئی ٹوئیٹ کیے۔ انہوں نے کہا ”عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور دیگر کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کی بربریت بھری کارروائی سے حیران ہوں۔ الزامات کے بغیر کسی پر کارروائی جمہوریت کا سب سے گھٹیا قدم ہے۔ جب ناانصافی والے قانون پاس کیے جاتے ہیں یا ناانصافی کرتے ہوئے قانون نافذ کیے جاتے ہیں تو لوگوں کے پاس پر امن مظاہرہ کرنے کے علاوہ کیا متبادل ہے؟“
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی نظریاتی مخالفت کو درکنار رکھتے ہوئے محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر جموں و کشمیر میں حکومت بنائی تھی تاہم بعد ازاں بی جے پی نے محبوبہ حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی اور وہاں صدر راج نافذ کردیا گیا۔ دوسری طرف عمر عبداللہ بی جے پی کی سابقہ حکومت میں مرکزی وزیر رہ چکے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے کل پارلیمان میں اپنی تقریر میں آئین کی دفعہ 370 کو ختم کیے جانے کی عمر عبداللہ، ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی طرف سے اعتراض کی نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ ان لیڈروں نے جو بیانات دیے وہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتے۔
سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا”پی ایم مودی کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہرے سے انتشار پھیلے گا لیکن وہ تاریخ اور مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا جیسے رہنماوں کی رہنما مثالوں کو بھول گئے ہیں۔“
پبلک سیفٹی ایکٹ فاروق عبداللہ کے والد اور عمر عبداللہ کے دادا سابق وزیر اعلی شیخ محمد عبداللہ نے منظور کرایا تھا۔انہوں نے 1970کی دہائی میں اس قانون کو لکڑی کے اسمگلروں سے نمٹنے کے لیے منظور کیا گیا تھا۔ 1990ء کی دہائی کے دوران جب کشمیر میں عسکریت پسندی اپنے عروج پر تھی تو پولیس اور سکیورٹی فورسز نے اس قانون کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اب خود ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ اس قانون کا شکار ہوگئے ہیں۔
اس قانون کے دو جز ہیں۔ عوامی نظم ونسق اور ریاست کی سلامتی کو لاحق خطرات۔ عوامی نظم و نسق کے تحت کسی شخص کو مقدمہ چلائے بغیر چھ ماہ تک اور ریاست کی سلامتی کو لاحق خطرات کے تحت کسی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے دو سال تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔
محبوبہ مفتی کی پارٹی پی ڈی پی نے پی ایس ایس لگانے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی مخالفت کرنے پر مرکزی رہنماؤں پر مقدمات قائم کرناجمہوریت کا قتل ہے۔