امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کانگریس میں موخذاے کی کاروائی سے حسب توقع بری ہوگئے۔ صدر ٹرمپ پر الزام تھا کہ انہوں نے بذریعہ فون یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اپنے ممکنہ ڈیموکریٹک صدارتی حریف جو بائیڈن اور ان کے صاحبزادے کے خلاف بد عنوانی کی تحقیقات کریں۔یاد رہے کہ امریکہ کے سابق نائب صدر جو بائیڈن کے صاحبزادے ہنٹر بائیڈن نے یوکرین کی گیس کمپنی میں ملازمت حاصل کر رکھی تھی۔صدر ٹرمپ پر دوسرا الزام یہ تھا کہ وہ کانگریس کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔100رکنی سینیٹ میں صدر ٹرمپ کے خلاف دوتہائی اکثریت سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ ری پبلکن پارٹی،ڈیموکرٹیکس اراکین نے اپنی جماعت کے موقف مطابق ووٹ دیا۔ صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی کاروائی 52/48اور53/47سے مسترد کی گئی، تاہم ری پبلکن پارٹی کے ایک رکن مٹ رومنی نے دوسرے الزام پر صدر ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے۔
امریکی صدر اپنے خلاف مواخذے کی کاروائی پر اسپیکر نینسی پلوسی پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں، صدر ٹرمپ اور اسپیکر پلوسی کے درمیان تلخی اپنے عروج پر اُس وقت نظر آئی جب صدر ٹرمپ نے کانگریس کی طاقت ور اسپیکر سے مصافحہ نہیں کیا اور ردعمل پر اسپیکر پلوسی کی جانب سے صدر ٹرمپ کی تقریر کو ایوان میں پھاڑ دینے کے عمل کو عالمی توجہ حاصل ہوئی اور دونوں عہدے داران کے طرز عمل کو حیرانی سے دکھا گیا۔ مواخذے کی اس کاروائی کو صدر ٹرمپ نے اپنی بڑی فتح و تاعمر صدر رہنے کا اعلان جب کہ اسپیکر پلوسی نے احتساب کے نظام کو ناکام قرار دیتے ہوئے سینیٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا۔امریکی صدارتی نظام میں سینیٹ کو طاقت ور ایوان کی حیثیت حاصل ہے، ایوان میں ری پبلکن پارٹی کے اراکین کو اکثریت حاصل نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی کاروائی کو اُس وقت دھچکا پہنچا تھا جب صدر ٹرمپ کے خلاف مزید شواہد و گواہان کی طلبی کی قرار داد کو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ امریکی صدر، ممکنہ نومبر میں صدارتی مہم کے لئے مواخذہ کی کاروائی کو اپنے حق میں ہونے پر جارحانہ رویہ اختیار کریں گے اور اس فیصلے سے امریکی عوام سے دوبارہ کامیابی کے لئے توقعات کو مزید وسعت دیں گے۔ ڈیمو کرٹیکٹ، صدر ٹرمپ کو امریکا کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور امریکی عوا م کی کثیر اکثریت بھی امریکی صدر کے غیر سنجیدہ بیانات، یو ٹر ن اور کئی اہم امور پر سخت پالیسیوں کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ صدر ٹرمپ کے لئے دوسری مدت صدارت میں کامیابی آسان نہ ہوگی اور انہیں ڈیمو کرٹیکس کی سخت مخالفت کا سامنا رہے گا۔
صدر ٹرمپ سیاسی بحران سے نکلنے میں کامیاب تو ہوگئے ہیں تاہم انہیں کئی عالمی امور میں کامیابی کے لئے موافق حالات سازگار ہونے کی اُمید ہے، گو کہ امریکی صدر کے کئی متنازع فیصلوں و پالیسیوں سے امریکی اتحادی ناراض بھی ہوئے، لیکن صدر ٹرمپ نے اُن پالیسیوں کو فوقیت دی اور کانگریس سمیت کسی بھی عالمی قوانین کی پرواہ نہ کرتے ہوئے”سب سے پہلے امریکا“ کی پالیسی کو اپنایا۔صدر ٹرمپ نے اسٹیٹ آف یونین سے خطاب کے دوران اپنی مخالف جماعت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور گذشتہ برس کے خطاب کے برعکس امریکا کی کامیابیوں کو بیان کیا، لیکن ڈیمو کرٹیس نے امریکی صدر کے اقتصادی دعوؤں کو مسترد کردیا۔ ڈیمو کریٹک رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ناکام معاشی پالیسی کے باعث امیر طبقہ زیادہ مراعات یافتہ جب کہ مزدور، کسان اور ملازمت پیشہ افراد مالی دباؤ کا شکار ہیں.ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی ریاست مشی گن کی گورنر گریچین ویٹمر نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ ری پبلکنز عوام سے صحت عامہ کی سہولیات واپس لینا چاہتے ہیں۔ البتہ ڈیمو کریٹک پارٹی عوام کو مزید سہولیات دینا چاہتی ہے۔
گریچین ویٹمر نے کہا کہ ہماری ساری توجہ امریکی عوام کو صحت عامہ اور مزدوروں کو سہولیات دینے پر مرکوز ہے۔ 2020میں اسٹیٹ آف یونین خطاب سے صدر ٹرمپ امریکا کی تباہیوں کا ذکر کرتے رہے ہیں کہ ڈیموکرٹیس کی وجہ سے امریکا تباہی کے دینے پر پہنچا۔ صدر کے اسٹیٹ آف یونین خطاب اور مواخذہ کے کاروائی مسترد ہونے سے امریکی صدارتی انتخابات پر قابل ذکر اثرات مرتب ہونے کے امکانات پر جائزے لے جا رہے ہیں، مواخذہ کی کاروائی کے نتائج کو اہم قرار دیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس سے قبل دو امریکی صدور کے خلاف مواخذے کے کاروائی کامیاب نہیں رہی تھی، امریکی سینیٹ کا رویہ عمومی طور پر یہی رہا ہے کہ صدر کے سیاسی و عالمی کردار پر عوام کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ امریکی صدر کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ ? ? ?
امریکی صدر اس وقت مشرق وسطیٰ سے افواج کو باہر نکالنے کے حوالے سے بارہا بیانات دیتے رہے ہیں، مشرق وسطیٰ کی جنگ میں امریکی فوج کی موجودگی کو دلدل میں دھنسا جانا بھی قرار دیا ہے لیکن امریکی افواج کا صدر ٹرمپ کی خواہش کی باوجود انخلا ممکن نہیں ہوسکا ہے، عراق میں امریکی سفارت خانے پر حملے اور ایران کے ساتھ جھڑپ کے بعد عراقی پارلیمنٹ نے امریکی افواج کو اپنی سرزمین سے انخلا کی قرار داد منظور کی جس پر امریکی صدر برہم ہوئے اور عراق پر پابندیاں عاید کرنے کی دھمکیاں دے ڈالی، تاہم بعد میں اپنے بیان پر یو ٹرن لیتے ہوئے امریکی افواج کے تعداد پانچ ہزار تک رکھنے کا اعلان کیا۔ صدر ٹرمپ نے فلسطین کے دو ریاستی حل کے لئے جو روٹ میپ دیا، اُسے عرب لیگ سمیت فلسطینی صدر نے سختی سے مسترد کر دیا۔
امریکی صدر نے اسے ”صدی کا معاہدہ“ قرار دیا تھا، لیکن جہاں اہم فریق فلسطین نے اس منصوبے کو رد کیا تو دوسری جانب یورپی یونین نے بھی صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے دیا، صدر نے اپنے منصوبے میں غرب اردن اور مغربی کنارے کے دیگر حصوں کو ضم کرنے سمیت یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔یورپی یونین نے اپنے27ممالک کے ساتھ مشترکہ صلاح و مشورے کے بعد ردعمل دیا، جس پر اسرائیل نے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا، فلسطینی حکام صدر ٹرمپ کے منصوبے کو ”فرسودہ“ قرار دے چکے ہیں۔ واضح رہے کہ یورپی یونین نے مشرقی وسطی میں امن کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے پر یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی کی ہے کہ ان کی تجویز اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے ماضی میں ہونے والے معاہدوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یورپی یونین میں خارجہ امور کے سربراہ جوزیف بوریل نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین اور اسرائیل کے مابین براہ راست بات چیت پر زور دیا۔
امریکی صدر کو چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا سامنا رہا ہے، حالیہ دنوں چین میں کررونا وائرس کو لے کر چین کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم بھی چلائی جا رہی ہے، جس سے امریکا کے ایک اعلیٰ عہدے دار کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا کیونکہ انہوں نے چین میں کررونا وائرس کو امریکی معیشت کی بحالی کے لئے خوش آئند قرار دیا تھا، ایک اندازے کے مطابق چین کو تین میں 60ارب ڈالر ز کے نقصان کا سامنا ہے۔
کورونا وائرس کی زد میں 25سے زاید ممالک آئے ہیں اور خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں، ان ممالک کو بھی تجارتی خسارے کا سامنا ہوگا اور عالمی تجارت کو ایک وائرس نے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ چین کے ساتھ، امریکی صدر نے کئی اہم معاملات پر اہم پیش رفت کرتے ہوئے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کردیئے ہیں جس سے بادی النظر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ سے بڑھتی کشیدگی میں کمی واقع ہوئی تو دوسری جانب صدر ٹرمپ کی جانب سے ایرانی فوجی عہدے دار جنرل قاسم سیلمانی کو ہلاک کرنے کے بعد پورے خطے کی صورتحال میں جنگ کی صورتحال پیدا ہوگئی،جس سے پوری دنیاکے متاثر ہونے کے خطرات پر تحفظات کا سامنا کیا گیا۔
ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر بڑی کاروائی کی، پہل تو امریکی صدر نے کسی بھی فوجی کے نقصان کے امکان کو سختی سے رد کیا تاہم پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان میں تصدیق ہوئی کہ امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی ہے، تاہم کسی فوجی کی ہلاکت کے حوالے سے اب بھی تصدیق نہیں کی گئی ہے تاہم بڑی تعداد میں فوجیوں کے زخمی ہونے اور ان کے معلاج و معالجے کئے جانے کے اعتراف کے بعد یہی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ایرانی حملے میں امریکی فوجیوں کو بڑا نقصان پہنچا تھا،تاہم یوکرائن مسافر طیارے پر حملے میں 187افراد کی ہلاکت کے سبب ایران کو سخت عالمی دباؤ کا سامنا ہوا۔ ایسے انسانی غلطی قرار دیا گیا تاہم ایرانی موقف کو مسترد کیا جارہا ہے کہ میزائل فائر کرنے والوں کو علم تھا کہ طیارہ جنگی نہیں تھا۔
صدر ٹرمپ کے افغانستان کے دورے کے بعد دوحہ میں دوبارہ مذاکراتی عمل شروع ہوا تھا لیکن اس پر ایک بار پھر ڈیڈ لاک ہے، کابل انتظامیہ اور صدر ٹرمپ افغان طالبان کی جانب سے مستقل جنگ بندی کا اعلان چاہتے ہیں لیکن افغان طالبان نے اپنے گذشتہ موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے عارضی جنگ بندی کی پیش کش کی تھی، جس پر صدر ٹرمپ و امریکی اعلیٰ حکام نے مثبت ردعمل نہیں دیا، افغان طالبان نے معاہدے پر جلد دستخط کئے جانے کے عمل میں عجلت سے کام لینے سے اجتناب برتنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے کہ انہیں جلد معاہدے کی ضرورت نہیں ہے، افغان طالبان کے مطابق اگر امریکا، اپنی افواج کا جلد انخلا چاہتا ہے تو انہیں معاہدے پر جلد عمل درآمد و دستخط کی ضرورت ہے، جرمنی نے بین الافغان کانفرنس کی میزبانی کے لئے پیش کش کی ہوئی ہے جس میں افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے پر غور کیا جائے گا، تاہم امریکا اور افغان طالبان کے درمیان سرد جنگ کے جلد خاتمے کی توقع ظاہر نہیں کی جا رہی۔صدر ٹرمپ اپنے سیاسی بحران کے حل کے بعد مشرق وسطیٰ میں ایران سے مذاکرات کے ذریعے من پسند راستہ چاہتے ہیں لیکن ایران نے امریکی پابندیوں کو غیر مشروط طور ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اوبامہ معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھنے کا کہا ہے۔
رواں ہفتے یورپ میں سب سے اہم تاریخی پیش رفت اُس وقت ہوئی جب 47برس بعد برطانیہ، یورپی یونین سے الگ ہوگیا۔ یورپی یونین سے انخلا کا معاملہ کئی سال تک برطانوی سیاست پر حاوی رہا۔ تقریباً ساڑھے تین برسوں کے دوران اس پر بحث و مباحثہ، ریفرنڈم اور یہاں تک کے نئے انتخابات بھی ہوئے۔ برطانوی عوام اس معاملے پر منقسم ہی رہی۔ اور آنے والے دنوں میں بھی مخالفت اور حمیت کے درمیان موجود خلا آسانی پر ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔دو وزرائے اعظم مستعفی ہوئے۔ سال کے آخر تک کئی اہم معاملات طے کرلئے جائیں گے جس کے بعد برطانیہ ایک نئی شناخت کے ساتھ ابھرے گا۔ بریگزٹ برطانوی تاریخ کا ایک اہم مرحلہ ہے، یورپی یونین کے بعد برطانیہ امریکا سے بھی تجارتی معاہدے کرنے میں آزاد ہوگا، جس کے بعد دونوں حلیف ممالک کے درمیان تجارتی معاہدوں سے عالمی معیشت پر بھی اثرات رونما ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ صدر ٹرمپ اُس وقت امریکی صدر دوبارہ منتخب ہوں گے یا نہیں، یہ تو نومبر کے صدارتی انتخابات کے بعد ہی سامنے آئے گا، تاہم اس وقت امریکی صدارتی دوڑ کے پرائمری انتخابات میں بائیں بازو کے امیدواروں سے بیشتر صدارتی امیدوار پریشان نظر آرہے ہیں۔ عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے پرائمریز کے شروع میں ہی برنی سینڈرز اور الیزابتھ وارن جیسے بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے امیدوار سبقت لیے ہوئے ہیں۔ کچھ سرمایہ کار گھبرائے ہوئے ہیں اور مبہم پیشنگوئیاں کر رہے ہیں۔امریکی صدارتی انتخابات کی ممکنہ امیدوار الزبتھ وارن سے سرمایہ کار کو یہ خوف کھا رہے ہیں کہ الزبتھ نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات جیت سکتی ہیں۔
امریکی صدر کی پالیسیوں کی وجہ سے کئی ممالک خانہ جنگیوں و پراکسی وار میں الجھی ہوئے ہیں۔ امریکی بلاک کے اثر سے نکلنے کے لئے ایک ایسا معاشی و عسکری اتحاد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو امریکی اثر رسوخ و دباؤ سے آزاد ہو۔ امریکا اپنے معاشی نظام کے لئے شوشلزم کو اب بھی خطرہ سمجھتا ہے اور سرمایہ داری نظام کے حامیوں کی وجہ سے امریکا کی پالیسیاں ترقی پزیر ممالک کے داخلی معاملات پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں، اس وقت واحد سپر پاور ہونے کے زعم میں امریکی صدر کا رویہ آمرانہ قرار دیا جاسکتا ہے، جو کسی بھی ملک پر اپنی پالیسی حاوی رکھنے کی سوچ رکھتا ہوں۔ترقی پزیر ممالک سرمایہ داری نظام میں امریکی اجارہ داری سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں، تاہم امریکی سرمایہ داری نظام ان کی کوششوں میں رکاؤٹ پیدا کررہا ہے۔
ترکی کے صدر طیب اردوگا ن آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کررہے ہیں، جس کا مرکزی نکتہ دونوں ممالک کے درمیان رشتوں و تعلقات کو مزید قریب لانا ہے تو دوسری جانب ملائیشیا، ترکی وژن کے مطابق پاکستان کے تاجروں کو صدر طیب اردوگان کے دورے سے فائدے اٹھانے کی رغبت بھی دی جارہی ہے، ترکی نیٹو ممالک میں امریکی بلاک کا حصہ ہے تاہم کرد ملیشیا و روس سے دفاعی میزائل پروگرام کی خریداری اور امریکا کی جانب سے ایف 17طیاروں کی فراہمی و تربیتی پروگرام کو روکنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری و کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ترکی لیبیا اور شام میں امریکی مداخلت کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی جنگ میں الجھتا جارہا ہے تاہم اس کے باوجود ترکی کے ساتھ تجاری تعلقات اہمیت کے حامل ہیں، امریکا میں صدر ٹرمپ کی جماعت کے خلاف ڈیمو کرٹیس کا معاشی اصلاحات کا ایجنڈا، امریکا کی سمت تبدیل کرسکتا ہے۔
امریکی عوام مسلسل جنگ و معاشی گراؤٹ کی وجہ سے تنگ آچکے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ بے روزگاری میں کمی اور ملازمتوں میں اضافہ ہو، ان کے سماجی مسائل حل ہوں، دنیا میں انہیں، امریکی پالیسیوں کی وجہ سے خطرات کا سامنا نہ ہو، صدر ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکی عوام میں عدم تحفظ کو فروغ دیا ہے، تشدد و نسل پرستی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آرہاہے، سماجی طبقاتی تفریق کی وجہ سے امریکی عوام، موجودہ پالیسیوں سے مطمئن نظر نہیں آرہے۔دیکھنا یہ ہوگا کہ امریکا کا سافٹ امیج بحال کرنے اور عوام میں مسائل کی کمی کے لئے ٹرمپ انتظامیہ اپنے رویوں کو تبدیل کرتی ہے یا نہیں۔
امریکی صدر نے عالمی سیاسی منظر نامے میں تشویش ناک تبدیلیاں کیں ہیں، جس کی وجہ سے جہا ں امریکا کی مخالفت میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب حلیف ممالک بھی امریکی پالیسیوں سے اختلاف کرنے لگے ہیں۔صدرٹرمپ کی پالیسیوں سے عالمی رائے عامہ بُری طرح متاثر ہوئی ہے، تاہم امید کی جا رہی ہے کہ امریکی عوام نومبر کے صدارتی انتخابات میں ایسی معتدل قیادت کے حق میں ووٹ دینا چاہیں جو انہیں تشدد و خوف کے سائے سے نجات دلانے کے ساتھ، ان کے سماجی مسائل کو ٹوئٹر پر نہیں بلکہ زمینی حقائق کے مطابق حل کرانے کی صلاحیت رکھتا ہو، اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کی حامی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، لیکن عمومی جائزے میں صدر ٹرمپ کو امریکا جیسی طاقت ور مملکت کے لئے مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ صدر ٹرمپ کو ڈیمو کرٹیس کے ساتھ سوچ تبدیل کرنے والی عوام اور سب سے بڑھ کر میڈیا کا سامنا کرنا ہوگا، جو صدر ٹرمپ کے خلاف سخت لائحہ عمل پر عمل پیرا ہے، سی این این کے ایک پروگرام میں اینکر پرسن نے جس طرح اسپیکر نینسی پلوسی کی طرح صدارتی تقریر کے مسودے کو پھاڑا اور براہ راست نشریات میں دکھایا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو ”مزید چار سال اور“ کے مقابلے کے لئے سخت ترین حریفوں کا سامنا ہے۔ صدر ٹرمپ کی کامیابی یا ناکامی بھی عالمی سیاسی و عسکری منظر نامے کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔روس، چین، ترکی، جرمنی، جنوبی کوریا وینزیلا سمیت کئی اہم ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات کا دارو مدار صدارتی انتخابات کے نتائج پر ہے، جہاں سرمایہ دارنظام کے حامی و مخالفین کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔