اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اسلام آباد کی مشہور لال مسجد میں ایک بار پھر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ مقامی انتظامیہ نے لال مسجد کے اردگرد خار دار تاریں لگا کر سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے ہیں۔ کیا یہ مسئلہ دو ارب روپے یا حکومتی وعدہ خلافیوں کا ہے؟
لال مسجد سن دو ہزار سات میں اس وقت ملکی اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنی، جب اس کے شعلہ بیاں پیش امام مولانا عبدالعزیز اور ان کے بھائی غازی عبدالرشید نے نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا۔ مسجد سے متصل مدرسے جامعہ حفصہ کی طالبات نے کئی مساج سینٹرز پر بھی مبینہ طور پر حملے کیے۔ حکومت کا الزام تھا کہ مسجد اور مدرسہ انتہاپسندوں کا گڑھ ہے، جہاں تحریک طالبان پاکستان کی کھل کر حمایت کی جاتی ہے۔ حکومت نے الزام لگایا کہ مسجد سے اشتعال انگیز تقریریں ہو رہی ہیں اور ریاست کی رٹ کو کھلم کھلا چیلنج کیا جا رہا ہے۔
ان تمام عوامل کے پیش نظر دو ہزار سات میں پرویز مشرف کی حکومت نے ایک ملٹری آپریشن شروع کیا، جس میں مبینہ طور پر سینکڑوں افراد بشمول غازی عبدالرشید ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کے بعد مولانا عبدالعزیز کو حراست میں لیا گیا اور بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا لیکن ان کے لال مسجد آنے پر پابندی لگا دی گئی۔
لال مسجد کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی، جب مولانا عبدالعزیز دو ہفتے پہلے انتظامیہ سے یہ وعدہ کر کے آئے کہ انہیں صرف جمعہ کی نماز پڑھانے کی اجازت دے دی جائے لیکن وہ نماز پڑھانے کے بعد وہیں رک گئے۔ ان کی زوجہ اُم حسان، جو چند ماہ سے مسجد آ جا رہی تھیں، بھی دو سو کے قریب طالبات کو لے کر مسجد پہنچ گئیں۔ اب اُم حسان کے بقول وہ سب محصور ہیں اور انتظامیہ نے خاردار تاریں لگا کر مسجد کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو جامعہ حفصہ کی پرنسپل ام حسان نے بتایا، ”دو ہزار سات کے ملٹری آپریشن کے بعد حکومت نے ہمیں ایچ الیون سیکٹر میں ایک بیس کینال کا پلاٹ دو ہزار گیارہ دیا تھا۔ دو ہزار چودہ میں انہوں نے ہمارے لیے مشکلات کھڑی کرنا شروع کر دیں اور دو ہزار انیس میں انہوں نے کہا کہ یہ پلاٹ ہم آپ کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر نہیں دے سکتے۔ ہم نے اس پلاٹ پر ساڑھے تین کروڑ روپے لگائے اور حکومت ہمیں وہ معاوضہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن معاملہ پیسوں کا نہیں ہے، ”بلکہ ہمارے بنیادی حقوق غضب کیے جا رہے ہیں۔ میرے ساتھ تقریبا ڈھائی سو لڑکیاں ہیں اور پولیس نے نہ صرف لال مسجد بلکہ جامعہ حفصہ اور ایچ الیون والے پلاٹ کا بھی محاصرہ کیا ہوا ہے، جہاں ایک چھوٹی سے مسجد ہے اور کچھ طالبات بھی وہ پڑھتی ہیں۔ پولیس ہمیں کھانے پینے کی اشیاء نہیں لے کر جانے دے رہی، جس سے ہمیں شدید مشکلات ہیں۔‘‘
تاہم لال مسجد کے کچھ ذرائع کا دعوی ہے کہ اصل مسئلہ پیسوں کا ہے، ”جب سن دو ہزار انیس میں حکومت نے پلاٹ دینے سے انکار کیا تو مولانا عبدالعزیز نے نہ صرف ساڑھے تین کروڑ روپے کا مطالبہ کیا، جو ان کے بقول انہوں نے اس پلاٹ پر خرچ کیے ہیں بلکہ پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق حکومت سے قیمت ادا کرنے کا بھی کہا، جو دو ارب کے قریب بنتی ہے۔ حکومت نے یہ رقم دینے سے انکار کر دیا۔‘‘
ام حسان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مولانا نے مارکیٹ ویلیو کے مطابق پیسے کی ادائیگی کی بات کی تھی۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ پیسہ کتنا بنتا ہے۔
لال مسجد کی شہدا فاؤنڈیشن کے صدر اسد طارق ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ پلاٹ واپس لینا نہیں چاہیے تھا، ”حکومت نے اگر یہ پلاٹ خود دیا تھا تو لینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لہذا حکومت کو یہ پلاٹ واپس نہیں لینا چاہیے۔‘‘
تاہم مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر مولانا عبدالعزیز اس مسجد میں نہیں آ سکتے۔ مقامی پولیس کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”وہ دو ہفتے پہلے یہ وعدہ کر کے آئے کہ وہ جمعہ پڑھا کے چلے جائیں گے لیکن اب انہوں نے مسجد سے نکلنے سے انکار کر دیا ہے اور ان کی بیوی بھی دوسرے مدرسے سے بچیاں لے کر پہنچ گئی ہیں۔‘‘
آبپارہ تھانے نے صورت حال کو معمولی قرار دیا لیکن لال مسجد کے اطراف کر رہنے والے ایک رہائشی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اسے انتہائی کشیدہ قرار دیا۔ اس رہائشی نے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ”مسجد کے اطراف خار دار تاریں لگا دی گئیں ہیں، پولیس، رینجرز اور انسداد دہشت گردی اسکواڈ کی پولیس متعین ہے اور لوگوں میں خوف و ہراس ہے۔‘‘
عام صورت حال میں ایسے معاملات کو پولیس ہی ڈیل کرتی ہے لیکن آبپارہ پولیس نے اس بات کی تصدیق کی کہ معاملات کو ڈی آئی جی آپریشن دیکھ رہے ہیں، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صورت حال اتنی نارمل نہیں ہے، جتنی کہ پولیس ظاہر کر رہی ہے۔
لال مسجد کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ مولانا عبدالعزیز ضد کے پکے ہیں اور یہاں آ کر بیٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ آسانی سے واپس نہیں جائیں گے، جس کی وجہ سے یہ امکان پیدا ہو رہا ہے کہ شاید انہیں نکالنے کے لیے پولیس طاقت کا استعمال کرے۔