اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکسان میں لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کو بیس کینال پلاٹ دینے کی ڈیل پر حکومت کے اندر اور باہر سے نکتہ چینی سامنے آ رہی ہے۔
ناقدین کے خیال میں یہ ڈیل ‘کھلی بلیک میلنگ’ کا نتیجہ ہے، جس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
مولانا عبدالعزیز حکومتی پابندی کے باوجود دوہفتے سے لال مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کی اہلیہ اور جامعہ حفصہ کی پرنسپل اُم حسان نے ڈی ڈبلیو کو چند دن پہلے بتایا تھا کہ حکومت نے جامعہ حفصہ کی تباہی کے بعد سن دوہزار گیارہ میں ایک معاہدے کے تحت بیس کینال کا ایک پلاٹ اسلام آباد کے ایچ الیون سیکٹر میں ان کے حوالے کیا تھا۔
اُم حسان کے مطابق انہوں نے اس پر ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ کیے اور وہاں ایک مسجد اور مدرسہ بنایا گیا۔
لیکن ان کے مطابق حکومت نے پچھلے سال اس پلاٹ کی ملکیت ان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ ذرائع کے مطابق مولانا عبدالعزیز نے اس پلاٹ کے بدلے دو ارب روپے طلب کیے تھے اور جب حکومت نے یہ رقم دینے سے انکا ر کیا تو وہ لال مسجد میں آکر بیٹھ گئے۔ اس دوران ان کی اہلیہ بھی دو سو سے زائد طالبات کو لال مسجد لے آئیں۔
حکام کی طرف سے مذاکرات کے بعد بلآخر حکومت نے مولانا کی طرف سے متبادل پلاٹ دینے کا مطالبہ مان لیا۔
اس ڈیل پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے تنقید کرتے ہوئے کہا “اس حکومت کی ڈوریں کہیں اور سے ہل رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی کی کال آگئی ہوگی کہ پلاٹ دے دیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے عناصر سے نمٹنے کے لیے کے فیض آباد دھرناکیس کے فیصلے پر عمل کیا جائے۔”
لیکن دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شیعب کے خیال میں اس حوالے سے ماضی میں عدالتوں نے بھی کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔
انہوں نے کہا، “افتخار چوہدری نے مشرف دشمنی میں اس مولوی کو رہا کیا ورنہ یہ آج جیل میں سڑ رہا ہوتا۔ یہ ساری حکومتوں کو بلیک میل کرتا ہے اور انہیں یرغمال بنا کر رکھتا ہے۔ اس سے تو دوسرے لوگوں کو بھی شہ ملے گی کہ ریاست کمزور ہے۔”
ان کا مزید کہنا ہے کہ عدالتوں کو عکسریت پسندی کے مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے تاکہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔ “اب آپ دیکھیں کہ فوجی عدالت نے بہتتر دہشت گردوں کو پھانسی دی لیکن پشاور ہائی کورٹ نے سب کو رہا کر دیا۔”
مولانا عبدالعزیز کے ساتھ پلاٹ کی ڈیل پر صرف حکومت کے ناقدین ہی نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی کے رہنما بھی تنقید کر رہے ہیں۔
پارٹی رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کے خیال میں یہ درست فیصلہ نہیں ہے۔ “میرے خیال میں حکومت کو اس مولوی کے غیر قانونی مطالبے کو بالکل ماننا نہیں چاہیے تھا۔ ایسے لوگوں کی جنرل ضیاء نے سر پرستی کی اور آج یہ حکومت کو بلیک میل کر رہے ہیں۔”
انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ لال مسجد والوں کے نہ صرف مقامی دہشت گردوں سے تعلقات ہیں بلکہ ان کے بین الاقوامی عسکریت پسند تنظیموں سے بھی رابطے ہیں۔
“جامعہ حفصہ کی طالبات کی وڈیو آج بھی موجود ہے جس میں انہوں نے داعش کے رہنما ابو بکر بغدادی سے وفاداری کا عہد کیا تھا اور اس کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ ریاست کہتی ہے کہ وہ اب عسکری تنظیموں کے خلاف ہے۔ تو پھر وہ ان کے خلاف اقدامات کیوں نہیں کرتی؟ جو شخص آئین پاکستان کو نہیں مانتا اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے، وہ جیل میں کیوں نہیں ہے؟ ریاست کو ان سوالات کے جوابات دینے چاہیے۔”
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت ملک بھر مییں غریبوں کی کچی آبادیاں، چھوٹی دکانیں اور سٹرک کنارے تجاوزات گرا رہی ہے اور دوسری طرف اسلام آباد سمیت ملک بھر میں سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر سے قائم مدارس سے نظریں چرا رہے کر رہی ہے۔