پاکستان میں ایسے ایسے ہیرے اور گوہر نایاب یوں بکھرے پڑے ہیں جیسے جیسے خزاں کے موسم میں درختوں کے پتے مگر ہیرے کی قدر صرف جوہری ہی کرسکتا ہے کمہار تو نایاب ہیرے کو بھی گدھے کے گلے میں لٹکا دیگا اور یہی حال ہمارے ملک میں ہیروں کا ہوا ہے لٹیرے اور ڈاکوں حکمرانوں نے عوام کو صرف گدھا ہی بنائے رکھا اپنا وزن اور لوٹے ہوئے مال کا وزن بھی ہمیں پڑا ڈالتے رہے اور آج پونی صدی ہونے کو آئی ہے اور ہم ان جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ڈاکوؤں کا وزن اٹھا اٹھا کر بے وزن ہوگئے ایک لمبی مدت اور طویل انتظار کے بعد اگر عوام کو کچھ شعور آہی گیا اور انہوں نے عمران خان کی شکل میں ایک ایسے جوہری کو منتخب کرہی لیا ہے تو وہ پرانے والے سوٹا ہاتھ میں پکڑے ابھی بھی ہماری جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔
کبھی ملک میں ڈالر کو اڑا کرلے جاتے ہیں کبھی آٹے کا بحران پیدا کرکے نوٹ کما لیتے ہیں تو کبھی چینی کو غائب کرکے لوٹ مار شروع کرلیتے ہیں ان لٹیروں نے عوام کا حشر نشر کررکھا ہے اسحاق ڈار کو ہی لے لیجیئے جسکے گھر کے آجکل بڑے چرچے ہیں جسے پنجاب حکومت نے پناہ گاہ کے طور کھول دیا اور اس گھر میں ایسے ایسے افراد رہ رہے ہیں کہ جنہوں نے زندگی بھر ایسی رہائش گاہ میں قدم نہیں رکھا مگر عمران خان کے وژن اور سردار عثمان بزدار کی مخلصانہ کوششوں سے غریب اور نادار افراد بھی اب اعلی شان محلوں میں رہ رہے ہیں اور انہی میزوں پر کھانا کھا رہے ہیں جو انہی افراد کو لوٹ لوٹ کر بنائے گئے تھے اسحاق ڈار کا والد استاد بودی سائیکلیں کرایہ پر دیکر گذر بسر کرتا تھا مگر آج اسکا بیٹا نہ صرف پاکستان بلکہ دبئی اورانگلینڈسمیت دنیا بھر میں اربوں ڈالر کی پراپرٹی کا مالک ہے محنت اور مزدوری کرکے غربت سے نکلنا کوئی بری بات نہیں مگر لوٹ مار کے نئے نئے طریقے دریافت کرکے حکمرانوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر ملکی دولت پر ہاتھ صاف کرنا بری بات ہے۔
ہمارے ہاں ایک ایماندار سرکاری افسر ساری عمر کام کرنے کے بعد ایک گھر یا ایک گاڑی نہیں خرید سکتا مگر عوام کے ووٹ سے عوام کی تقدیر بدلنے کے دعوے دار الیکشن میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے حکومت میں آتے ہی لوٹ مار شروع کردیتے ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خود کو امیر سے امیر تر بنانا اور عوام کو فقیر بنانا انہی باکمال لوگوں کا ہی کارنامہ ہے آج اگر پنجاب حکومت نے اسحاق ڈار کی ناجائز کمائی سے بنے ہوئے محلات کو عوامی رہائش گاہ میں تبدیل کردیا ہے تو کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے ہیں جنہوں نے پہلے میاں نواز شریف کو ملک سے بھگانے میں اہم کردار ادا کیا اور اب اسحاق ڈار کے ترجمان بن رہے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے عوام کے نام پر لوٹ مار کی یہ لوگ آج یا کل سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے ملک اور قوم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اب تو خود کو شہنشاہ اور بادشاہ سمجھنے والوں کی اولادیں بھی عوام کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں ان لوگوں کا سیاست کے علاوہ کوئی کاروبار نہیں جن سے ووٹ لیتے ہیں جنکے کندھوں پر سوار ہوکر ایوان اقتدار کی چوکھٹ پر پہنچتے ہیں پھر اسی عوام کو جوتے کی نوک پر رکھ لیتے ہیں پروٹوکول کے نام پر سڑکیں بلاک کردی جاتی ہیں سیکیورٹی کے نام پر پولیس کے حصار میں چلے جاتے ہیں اور ووٹ دینے والا دیکھتا ہی رہ جاتا ہے کہ انکا نمائندہ کب انکے ماتھے لگے گا اور کب انکی تقدیر بدلے گی مگر الیکشن سے قبل انکے وعدوں پر نعرے لگانے والے پانچ سال بعد بھی ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں جیسے پہلے تھے۔
صرف وہی لوگ بن سنور جاتے ہیں جو ان حکمرانوں کے چمچے اور دلال ہوتے ہیں باقی سب وعدوں کی آس پر زندگی گذار دیتے ہیں اور انہی لٹیروں،ڈاکوؤں اور نوسربازوں کی وجہ سے آج ہمارے ہیرے گلی محلوں میں رل رہے ہیں میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں شائد ہی کبھی سیاست سے ہٹ کر کسی اور شعبے کی طرف توجہ دی ہو اور میں ایف ایم 95پنجاب رنگ ریڈیو پر بھی ایک پروگرام کرتا ہوں اور اس پروگرام میں میرے ساتھ ایک نہایت ہی خوبصورت آواز والی نوجوان اور اپنی آواز کی طرح پیاری شمع باسط بھی موجود ہوتی ہے جن سے سیکھنے کا موقعہ بھی ملتا ہے اور سمجھنے کا بھی ہم دونوں عام روٹین کا پروگرام کیا کرتے تھے مگر ہماری پروڈیوسر مس شازیہ سعیدنے ہمارا پروگرام تبدیل کردیا اسے ایک نام دیکر ہمیں کام کا بنا دیا ہمارے پروگرام کو سپورٹس کا پروگرام راؤنڈ دی گراؤنڈبناکر ہمیں ایک نئی دنیا سے متعارف کروایا اس پروگرام کی بدولت ہمیں یہ جاننے کا موقعہ ملا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں صرف سفارش اور اقربا پروری کے کلچر نے ہمیں تباہ کیا ہمارے کھیل کے میدان ویران ہوئے اور نااہلوں کی وجہ سے ٹیم جیت سے دور ہوتی گئی۔
ہم نے ہاکی میں راج کیا ہم نے سکوائش میں ناقابل یقین حد تک کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے اور کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی اپنے نام کیا مگر کھیلوں میں بھی سیاست کے گھس آنے سے ہم مسلسل ناکامیوں کا شکار ہوتے چلے گئے میرے پچھلے دوپروگراموں میں دونوں مہمان پاکستان کے وہ ہیرے ہیں جنہیں تراشا نہیں گیا جو اپنی مدد آپ کے تحت پریشانیوں،مصیبتوں اور حکمرانوں کی بے حسی کا مقابلہ کرتے کرتے ہارے نہیں بلکہ کھیل کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے اور دوسروں کے لیے مثال بنے ایسے نوجوان کھلاڑی ہماری شان ہیں ہماری پہچان ہیں اور ہمارا مان ہیں پروگرام راؤنڈ دی گراؤنڈ کے مہمان خالد بھٹی اس وقت کبڈی اور رگبی میں کامیابی کا نشان بنے ہوئے ہیں۔
جبکہ تن سازی میں مسٹر لاہور اور مسٹر پنجاب رہنے والے جناب آصف عرف گوگا ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی محنت جاری رکھی مشکلات کو ہنس کر ٹالتے رہے کسی حکمران کے آگے امداد کا ہاتھ نہیں پھیلایا اور آج یہ لوگ ہماری نوجوان نسل کے لیے ایک کتاب کی مانند ہیں جنہیں پڑھ کر ہمارے ہیرے خود کو تراش سکتے ہیں مگر ان سب کامیاب لوگوں کا ایک سبق مشترکہ ہے کہ ہمت نہیں ہارنی اور کسی سے امید نہیں لگانی اسکے بعد اللہ تعالی کامیابیوں کے راستے کھول دیتا ہے آخر میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی جناب شہزاد اکبرکو بھی خراج تحسین کہ جن کی کوششوں سے عام انسان بھی زندگی کے چند لمحات سکون سے گذار رہا ہے۔