ماسکو (اصل میڈیا ڈیسک) روسی وزارت دفاع نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شام کے جنگ زدہ علاقے حلب کے مغربی علاقوں سے 70 ہزار افراد کی نقل مکانی کی خبروں کی تردید کی ہے۔ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ حلب سے شہریوں کی بڑے پیمانے پر انخلاء کی خبریں بے بنیاد ہیں۔
خیال رہے کہ شام میں اسدی فوج کی حمایت اور مخالفت میں جاری لڑائی میں روس اور ترکی کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ حالات کو پرسکون رکھنے کی مساعی کے باوجود دونوں طرف تنائو موجود ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے روس پر شام میں جرائم کے ارتکاب کا الزام عاید کیا ہے۔
روس نے ترک صدر کی طرف سے عاید کردہ الزامات مسترد کرتے ہوئے انقرہ پر ادلب میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام عاید کیا ہے۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ انقرہ نے شام سے انتہا پسندوں کو باہر نکالنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔
روسی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ انقرہ نے ادلب میں معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد نہیں کیا۔ ادلب کے بحران کے پیچھے ترکی کا ہاتھ ہے۔ انقرہ کی حکومت شمالی شام میں دہشت گردوں کو الگ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
روسی حکومت کا کہنا ہے کہ ادلب میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکی کی سرحد سے ادلب میں اسلحہ اور گولہ بارود کی منتقلی نے حالات مزید خراب کر دیے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ روسی فوج سوچی معاہدے کے تحت شام میں اپنی کارروائی کر رہی ہے۔ ترکی کی سرحد سے ادلب میں اسلحہ اور گولہ بارود کی منتقلی نے کشیدگی میں مزید اضافہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ حالیہ ایام میں ادلب اور مغربی حلب میں روسی اور شامی فوج ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ دونوں طرف سے شام کے جنگ زدہ علاقوں میں امن اور بات چیت کی کوششیں تا حال ناکام ہیں۔
قبل ازیں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے دھمکی دی تھی کہ اگر شامی فوج واپس نہ گئی تو فروری کے آخر تک انقرہ حلب اور ادلب میں فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انقرہ فروری کے آخر تک شامی فوج کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہے۔