شنگھائی (اصل میڈیا ڈیسک) چین میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں صرف ایک دن میں پندرہ ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب ان مریضوں کی مجموعی تعداد تقریباﹰ ساٹھ ہزار ہو گئی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بھی ساڑھے تیرہ سو سے تجاوز کر گئی ہے۔
شنگھائی میں چین کے قومی ہیلتھ کمیشن کی طرف سے جمعرات تیرہ فروری کو بتایا گیا کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس سب سے بڑے ملک میں صرف ایک دن میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تعداد میں آج تک کا سب سے بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
کل بدھ کے مقابلے میں آج جمعرات کے آغاز پر چین میں اس وائرس کے مریضوں کی تعداد 15,152 کے اضافے کے ساتھ 59,804 ہو چکی تھی۔ منگل گیارہ فروری کے دن تک اس وائرس کے چین میں مصدقہ مریضوں کی تعداد 44,653 بتائی گئی تھی۔
اس وائرس کے ہاتھوں چین میں گزشتہ روز مزید کم از کم 254 افراد ہلاک ہو گئے۔ یوں کورونا وائرس کے باعث، جسے اب عالمی ادارہ صحت کی طرف سے باقاعدہ طور پر ‘کووِڈ انیس‘ کا نام دیا جا چکا ہے، چین میں مجموعی انسانی ہلاکتوں کی تعداد بھی 1,367 ہو گئی ہے۔
چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے مطابق اس وائرس کی وجہ سے بیمار ہو جانے والے افراد کی تعداد میں ہزارہا کے اضافے میں سے بہت بڑا حصہ سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہوبے میں ریکارڈ کیا گیا۔ وہاں ایک دن میں اس وائرس کے نئے مصدقہ مریضوں کی تعداد تقریباﹰ ساڑھے 13 ہزار بتائی گئی ہے۔
چینی حکام کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں نئے مریضوں میں اس وائرس کی تشخیص زیادہ تر اس تیز تر طریقہ تشخیص کی وجہ سے ہوئی، جو کل بدھ کے دن سے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اس طریقہ تشخیص میں کمپیوٹر ٹوموگرافی کا استعمال کرتے ہوئے مریضوں کے سی ٹی اسکین کیے جاتے ہیں۔
اسی دوران چین کے کورونا وائرس یا COVID-19 سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہوبے میں، جہاں ووہان شہر سے اس مہلک جرثومے کا پھیلاؤ شروع ہوا تھا، حکمران کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ ترین صوبائی اہلکار کو بھی ان کے عہدے سے ہٹایا جا چکا ہے۔ بدھ سے لے کر جمعرات تک چین میں جو 254 نئی ہلاکتیں ہوئیں، ان میں سے 242 اسی صوبے میں ریکارڈ کی گئی تھیں۔
اب تک چین سے باہر بھی کم از کم 27 دیگر ممالک میں اس وائرس کے سینکڑوں کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔
چین میں اس وائرس کے نئے کیسز اور اس کی وجہ سے ہلاکتوں کی نئی پریشان کن تعداد کے سامنے آنے سے قبل بیجنگ میں حکومتی حلقے یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ دو روز تک نئے مریضوں کی تعداد میں کمی کے بعد اب شاید اس وائرس کا پھیلاؤ کچھ کم ہونا شروع ہو گیا تھا۔
اس پس منظر میں چینی صدر شی جن پنگ نے کل بدھ کو ملکی دارالحکومت بیجنگ میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی پولٹ بیورو کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ ملکی عوام اور بین الاقوامی برادری کو ان وسیع تر ‘مثبت اقدامات‘ سے اچھی طرح آگاہ کیا جانا چاہیے، جو چین اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کر رہا ہے۔
اس کے برعکس جنیوا میں عالمی ادارہ صحت کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ زیادہ تر چینی حکام کی طرف سے اعلان کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر ایسی کوئی بھی پیش گوئی کرنا غلط ہو گا کہ کورونا وائرس کا وبائی پھیلاؤ اپنے وسط مدتی یا آخری مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔
چین میں کووِڈ انیس نامی اس وائرس کے ہزارہا نئے کیسز اور کسی ایک دن میں ہلاکتوں میں سب سے زیادہ اضافے کی رپورٹوں کے کئی ایشیائی ممالک میں کاروباری منڈیوں پر بھی واضح منفی اثرات دیکھے گئے۔
چینی حکام کی طرف سے جاری کردہ اس وائرس سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار کے بعد شنگھائی، ہانگ کانگ، سیئول، ٹوکیو، سڈنی، سنگاپور، بنکاک اور دہلی تک کی سٹاک مارکیٹوں میں مندی دیکھی گئی۔ ایسے ہی منفی کاروباری اثرات تائیوان اور نیوزی لینڈ کے بازار ہائے حصص میں بھی نظر آئے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے مطابق چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کے اسی پھیلاؤ کے باعث اب یہ بات بھی یقینی ہے کہ رواں سہ ماہی کے دوران دنیا بھر میں تیل کی طلب میں متوقع اضافہ گزشتہ اندازوں کے مقابلے میں بہت کم رہے گا۔
اس کا سبب اس وائرس کی وجہ سے چینی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات اور ان کے دنیا بھر میں محسوس کیے جانے والے ضمنی اثرات ہیں۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی طرف سے آج جمعرات کے روز پیرس میں کہا گیا کہ اس سال جنوری سے لے کر مارچ تک کی پہلی سہ ماہی میں اب یہ بھی دیکھنے میں آئے گا کہ عالمی سطح پر گزشتہ ایک عشرے کے دوران پہلی بار خام تیل کا استعمال میں کمی ہو جائے گی۔