اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سول سوسائٹی، سیاست دانوں اور صحافتی تنظیموں نے حکومت کی طرف سے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے متعارف کروائے گئے نئے قواعد و ضوابط کی شدید مذمت کی ہے اور انہیں ’جمہوریت دشمن‘ قرار دیا ہے۔
وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ حکومت سوشل میڈیا کا ‘گلہ گھونٹنا‘ چاہتی ہے لیکن کابینہ کی طرف سے جاری کردہ ضوابط کو ناقدین ‘آزادی اظہار رائے کا گلہ گھوٹنے‘ کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ حال ہی میں منظور کیے جانے والے ان قواعد کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیوں پر یہ لازم ہو گا کہ وہ حکومت کی طرف سے متعین کردہ تحقیقاتی ادارے کو کسی بھی طرح کی انفارمیشن یا ڈیٹا فراہم کریں۔ ایسا نہ کرنے پر کمپنیوں کو پچاس کروڑ کا جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ ان کمپنیوں کو قابل اعتراض مواد کو چوبیس گھنٹے میں ہٹانا پڑے گا اور ایمرجنسی کی صورت میں ایسے مواد کو چھ گھنٹے میں ہٹانا ہوگا۔ ایسے مواد کی اطلاع متعلقہ ادارے کا افسر کسی بھی کمپنی کو خود یا ای میل کے ذریعے دے گا۔ سوشل میڈیا کمپنیز کو پاکستان میں تین ماہ کے اندر اپنے دفاتر بھی قائم کرنا پڑیں گے اور ایک ترجمان بھی مقرر کرنا ہو گا۔
پاکستان میں آزادی اظہار رائے کو قابو میں کرنے کے لیے اس سے پہلے بھی بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں یا انگریز دور کے قوانین کا سہارا لے کر آزادیِ صحافت کو محدود بنایا گیا۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں انگریز کے بنائے ہوئے سیکرٹ ایکٹ، سکیورٹی ایکٹ اور ڈیفینس آف انڈیا ایکٹ کا سہارا لیا گیا۔ ڈیفینس آف انڈیا کا بعد میں نام تبدیل کر دیا گیا۔ ان میں سے کچھ قوانین کو ایوب خان کے دور تک استعمال کیا گیا۔ ایوب خان کے دور میں پریس اینڈ پبلیکیشنز اور مارشل ریگولیشنز کا سہارا لیا گیا۔ اس کے علاوہ سیفٹی ایکٹ کو بھی صحافت کو دبانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان قوانین کو ختم کرنے کا وعدہ کیا لیکن بھٹو کے دور میں بھی پریس پر جبر جاری رہا اور صحافیوں کی پکڑ دھکڑ جاری رہی۔ جنرل ضیاء کا دور صحافت اور آزادی اظہار رائے کے لیے بد ترین کہا جاتا ہے، جب نہ صرف صحافیوں کو بے روزگار کیا گیا بلکہ انہیں جیلوں میں بھی ڈالا گیا اور انہیں کوڑے بھی مارے گئے۔ اس وقت پاکستان پینل کوڈ کی شق چارسو ننانوے اور پانچ سو میں بھی ترامیم کی گئیں اور اس کا ٹارگٹ بھی آزادی اظہار رائے تھا۔ اس کے علاوہ مارشل لاء ریگولیشنز کو بھی استعمال کیا گیا۔ جمہوریت کی بحالی کے بعد نواز شریف کے دو ادوار میں پریس پر قدغنیں لگائی گئیں۔ موجودہ قواعد دو ایسے ایکٹس کی روشنی میں بنائے گئے ہیں، جو نواز شریف اور ن لیگ کے ادوار میں بنائے گئے۔ ایک ایکٹ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ انیس سو ستانوے سے انیس سو ننانوے کے دوران بنایا گیا اور دوسرا پاکستان الیکڑانک کرائمز ایکٹ دو ہزار تیرہ سے اٹھارہ کے دوران بنایا گیا۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اور نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے خیال میں یہ قواعد جمہوریت کے خاتمے کا اعلان ہیں، ”کسی جمہوری ملک میں آزاد میڈیا کے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں۔ پاکستان میں میڈیا پر پہلے ہی قدغنیں ہیں۔ ہم نے پہلے بھی ان پابندیوں کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی ہے اور ہم اب بھی اٹھائیں گے۔‘‘
ڈاکٹر مالک کا مزید کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کو ہی اس کا ذمے دار ٹھہرائیں گے، ”پی ٹی آئی کسی کے بھی اشارے پر یہ قواعد لائی ہو لیکن منظر پر تو وہ ہی ہیں۔ اس لیے ہم انہی کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔‘‘ ان قواعد پر پاکستان کی فیڈرل یونین آف جرنلسٹس بھی چراغ پا ہیں۔ یونین کے مرکزی جنرل سیکریٹری ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم ان قواعد کی بھر پور مزاحمت کرے گی، ”یہ قواعد آئین کی آرٹیکل انیس کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو آزادی اظہار رائے کی ضمانت دیتی ہے۔ جب سے یہ حکومت وجود میں آئی ہوئی ہے، یہ میڈیا، سوشل میڈیا اور آزادی اظہار رائے کو دبانے پر تلی ہوئی ہے۔ ان قواعد سے یہ لگتا ہے کہ حکومت میں آمرانہ رجحانات ہیں، جن کی ہر سطح پر مزاحمت کی جانی چاہیے۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ یہ قواعد پی ٹی آئی نے نہیں بلکہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے نافذ کرائے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ حکومت ان قواعد کے ذریعے ان عناصر کو ٹارگٹ کرنا چاہتی ہے، جو ریاستی اداروں کو ناپسند ہیں، ”کئی ایسے افراد ہیں، جیسے کہ گل بخاری، وقاص گورایہ اور سندھی و بلوچ قوم پرست، جو سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں پر تنقید کرتے ہیں۔ تو یہ قواعد فوج کی فرمائش پر بنائیں گئے ہیں تاکہ ایسے افراد کو ٹارگٹ کیا جا سکے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کی طرف سے پاکستانی ذرائع ابلاغ پر ‘غیراعلانیہ پابندی‘ بھی بہت موثر رہی ہے اور مولانا فضل الرحمان کے جلسوں سے لے کر مریم نواز شریف کی ریلیوں تک ‘میڈیا ملک کے طاقتور اداروں کا تابع دار‘ ہی رہا ہے۔ بعض مرتبہ تو سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق صدر زرداری اور سابق وزیر برائے اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے انٹرویوز سمیت کئی انٹرویوز اور تقریروں کا میڈیا نے ‘غیر اعلانیہ بائیکاٹ‘ کیا۔
پی ٹی ایم کے بڑے بڑے جلسے پاکستان کے چوبیس گھنٹے چلنے والے ٹی وی چینلز پر کوئی جگہ نہ بنا سکے۔ ان پابندیوں کے باعث سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ مخالف میڈیا شخصیات اور ناقدین نے سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کیا، جسے اب حکومت کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ تاہم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی فرمان علی کا کہنا ہے کہ یہ پابندی موثر نہیں ہوگی، ”پہلے بھی حکومت نے یو ٹیوب پر پابندی لگائی تھی اور یہ موثر ثابت نہیں ہوئی۔ لوگوں نے پراکسی سرور استعمال کرنے شروع کر دیے تھے۔ چین جیسے طاقتور ملک میں، جہاں صرف وی چیٹ ہے، لوگ پراکسی سرور کے ذریعے واٹس ایپ استعمال کر رہے ہیں۔ تو یہاں بھی ایسا ہی ہو گا۔‘‘