تربت (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں بلوچ عسکریت پسندوں نے شورش زدہ صوبہ بلوچستان کے ضلع تربت میں نیم فوجی دستے کے ایک کیمپ پر گھات لگا کر حملہ کیا ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں کم از کم پانچ اہلکار مارے گئے جبکہ تین دیگر زخمی ہوئے۔
نیم فوجی دستے کے کیمپ پر حملے کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسندوں کی اتحادی تنظیم (براس) جسے بلوچی زبانی میں بلوچ راجی اجوئی سنگر بھی کہا جاتا ہے نے قبول کی ہے۔
ضلع تربت کے ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار نظر بلوچ کے بقول عسکریت پسندوں نے کیمپ پر حملہ اس وقت کیاجب سکیورٹی اہلکار معمول کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
انہوں نے کہا، ”یہ واقعہ تربت کے جنوب مغرب میں واقع درچکور کے مقام پر پیش آیا ہے۔ اس حملے میں دس سے زائد شدت پسند ملوث تھے جنہوں نے گھات لگا کر مقامی نیم فوجی دستے کے کیمپ پر دو مختلف اطراف سے خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔ حملہ آوروں نے کیمپ میں سرکاری املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کیا ہے تاکہ واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔‘‘
دو روز قبل کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملے میں 10 افراد مارے گئے تھے۔
نظر بلوچ کے بقول حملے کے بعد تربت میں سکیورٹی انتطامات کو مزید سخت کردیا گیا ہے اورمکران ڈویژن کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ”بلوچستان میں بدامنی پھیلا کر ملک دشمن عناصر صوبے میں ترقیاتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ قیام امن کے لیے فورسز نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ تربت اور مکران ڈویژن میں بدامنی پھیلانے کی بنیادی وجہ سی پیک بھی ہے کیونکہ دشمن یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کا یہ اہم اقتصادی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔‘‘
بلوچ عسکریت پسندوں کی اتحادی تنظیم چار کالعدم گروپوں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈز پر مشتمل ہے۔
براس نامی اس اتحاد نے تربت میں ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں 16 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ تنظیم کے ترجمان بلوچ خان کے بقول یہ حملہ براس کے آپریشن آسریچ کا ایک تسلسل ہے۔
تربت میں بلوچ عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سکیورٹی اہلکار علاقے میں تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی کہتے ہیں کہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر قبضے کے لیے ہونے والی کسی بھی کوشش کو بلوچ قوم کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”پاکستانی ریاست بلوچ عوام پر ظلم و بربریت کی جو تاریخ رقم کر رہی ہے اس پر مظلوم عوام کا ردعمل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں چادر اور چار دیواری کی جو پامالی کی جا رہی ہے اس پر بلوچ خاموش نہیں رہیں گے۔ ترقی کے نام پر بلوچستان کو لوٹا جا رہا ہے۔ اگر پاکستانی ریاست واقعی بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے تو یہاں کے وسائل پر صوبے کے حق حاکمیت کو قبول کیا جائے۔‘‘
شير محمد بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں ترقی کے نام پر صوبے کے وسائل کو بے دریغ لوٹا جا رہا ہے اس لیے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے مزاحمت بڑھا دی ہے۔
بلوچستان کے سیاسی امور کے سینیئر تجزیہ عبدالقیوم وکیل کہتے ہیں کہ بلوچستان میں رواں سال دہشت گردی کے واقعات میں غیرمعمولی اضافے کی ایک اہم وجہ غیرملکی سرمایہ کو ناکام بنانے کی ایک کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”بلوچستان کے حالات دن بدن کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ حالیہ چند دنوں کے دوران ہونے والے واقعات نےکئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ امن کی بحالی کے لیے یہاں کے معروضی حالات پر توجہ دینا سب سے اہم ہے۔ حکومت زمینی حقائق کی بنیاد پر جب تک نتیجہ خیز اقدامات نہیں کرے گے قیام امن کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘
عبدالقیوم وکیل کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں سی پیک کے تناظر میں ہونے والی غیرملکی سرمایہ کاری پر قوم پرست جماعتوں کے جو تحفظات ہیں ان پر توجہ نہ دینا حکومتی عدم توجہی کی عکاسی کرتا ہے: ”اس امرکو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کا اتحاد ان کے دفاعی مقاصد کے لیے کتنا اہم ہے۔ میرے خیال میں ‘براس‘ کا قیام بلوچ مسلح جدوجہد میں اب ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ گزشتہ سال بھی اسی تنظیم نے کئی اہم حملے کیے تھے اور اس سال بھی اس تنظیم کا یہ تیسرا بڑا حملہ ہے ۔‘‘
براس نے گزشتہ سال اپریل میں گوادر کے علاقے اورماڑہ میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اس حملے میں پاکستانی نیوی اور کوسٹ گارڈز کے 14 اہلکار مارے گئے تھے۔
براس نامی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد کی جانب سے اب تک ہونے والے اکثر حملے مکران ڈویژن کے ان علاقوں میں کیے گئے ہیں جو پاک چین اقتصادی راہدری کی حدود میں واقع ہیں۔