اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) حکومت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان سے استعفیٰ لے لیا جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہوگئے۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنا استعفیٰ منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوا دیا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ استعفیٰ فوری طور پر منظور کیا جائے۔
انور منصور خان نے اپنے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنا بیان جمع کرا دیا ہے۔
انور منصور خان نے اپنے استعفے میں مؤقف اپنایا کہ پاکستان بار کونسل نے میرے استعفے کا مطالبہ کیا تھا، افسوس ہے کہ جس بار کونسل کا چیئرمین ہوں اس نے استعفیٰ مانگا۔
دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ انور منصور خان سے استعفیٰ مانگا گیا تھا جس پر انہوں نے استعفیٰ جمع کرا دیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دو دن پہلے انور منصور خان نے سپریم کورٹ میں جو بیان دیا وہ کسی کے علم میں نہیں تھا اور اس میں حکومت کی منشا شامل نہیں تھی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ وزیر اعظم، صدر مملکت، شہزاد اکبر اور میری طرف سے سپریم کورٹ میں بیان جمع کرایا گیا، ہم نے اپنے بیان میں انور منصور خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے انور منصورخان سے آج 3 بجے تک استعفیٰ دینے کا کہا تھا، انہیں کہا گیا تھا کہ اگر 3 بجے تک استعفیٰ نہ دیا تو عہدے سے برطرف کر دیا جائے گا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے فل بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان کو سپریم کورٹ کے ججز پر لگائے گئے الزام کا تحریری ثبوت دینے یا معافی مانگنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سوالات کے جوابات نہ ملنے پر عدالت نے اٹارنی جنرل انور منصور خان سے کہا کہ بس بہت ہو گیا، یہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے، بغیر تیاری کیے دلائل دے کر ہمارا وقت ضائع نہ کریں، ہم عدالت سے اٹھ کر جارہے ہیں۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرا دیا ہے، کونسل اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو کونسل نے خارج کردیا تھا۔
خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی جانب سے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا گیا اور اس پر فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔