اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز اور حکومت کے درمیان سرد جنگ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ شعلہ بیاں مولانا آج بھی لال مسجد کے اندر ہیں اور انہوں نے مطالبات کی منظوری تک مسجد چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔
لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے مطالبات نے مزيد پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ ان کا تازہ مطالبہ يہ ہے کہ حکومت مسئلہ کشمیر کے حل ليے جہاد کا اعلان کرے اور ملک میں قران و سنت کا نظام نافذ کرے۔ مولانا عزیز تین ہفتوں سے زائد عرصے سے لال مسجد میں ہی موجود ہیں۔ حکومتی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو کچھ روز قبل بتایا تھا کہ مولانا یہ کہہ کر آئے تھے کہ وہ جمعے کی نماز پڑھا کر واپس چلے جائیں گے تاہم وہ لال مسجد میں ہی رک گئے، جہاں بعد ميں ان کی بیوی اور دو سو سے زائد طالبات بھی آ گئیں۔
مولانا عبدالعزیز کی بیوی ام حسان اور جامعہ حفصہ کی پرنسپل نے ڈی ڈبلیو کو کچھ ہفتے پہلے بتایا تھا کہ حکومت نے جامعہ کی تباہی کے بعد سن 2011 میں ایک معاہدے کے تحت انہیں بیس کنال کا ایک پلاٹ اسلام آباد کے ایچ الیون سیکٹر میں دیا تھا، جس پر انہوں نے ساڑھے تین کروڑ روپے بھی خرچ کيے تھے۔ اسی پلاٹ پر ایک مسجد اور مدرسہ بھی بنایا گیا تھا لیکن ام حسان کے بقول حکومت نے پچھلے سال اس پلاٹ کو دینے سے انکار کر دیا۔
اب مولانا عزیز کا کہنا ہے کہ حکومت اس پلاٹ پر لگنے والے ساڑھے تین کروڑ ان کو ادا کرے۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے مولانا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”حکومت نے ہمارا ایچ الیون والا پلاٹ منسوخ کر دیا اور ہم سے وعدہ خلافی کر کے وہ پلاٹ خالی کرایا۔ اب ہمیں حکومت لال مسجد کے ساتھ جامعہ حفصہ کی تعمیر کرنے دے یا خود اسے تعمیر کرے۔ علاوہ ازيں میرے جمعہ کے خطاب سے پابندی ہٹائی جائے، ملک میں قران اور سنت کا نظام نافذ کيا جائے اور حکومت کشمیر کے ليے جہاد کا اعلان کرے۔‘‘
جب مولانا عزیز سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے مطالبات غیر حقیقت پسندانہ نہیں، تو انہوں نے کہا، ”اگر حکومت چاہے تو قران و سنت کے نظام کو فوراً نافذ کیا جا سکتا ہے۔ کانفرنسیں اور پریس کانفرنسوں سے یہ نظام نافذ نہیں ہوگا۔ اسی طرح حکومت اگر کشمیر پر جہاد کا اعلان نہیں کر سکتی، تو کم از کم فوج ایل او سی سے ہٹائے اور جو مجاہدین لڑنا چاہتے ہیں، انہیں کشمیر جانے دیا جائے۔ کیا ہم نے افغانستان میں جہاد نہیں کیا؟ کیا ہم نے وہاں سوویت یونین کو شکست نہیں دی؟ وہاں جب امریکا کو ضرورت تھی تو جہاد جائز تھا، آج کشمیر میں کتنا ظلم و ستم ہو رہا ہے اور حکومت اعلان نہیں کر رہی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مولانا طاہر اشرفی دیگر چند علما کے ساتھ ان سے ملنے آئے تھے اور انہيں مطالبات سے آگاہ کر ديا گيا ہے۔ مولانا عزيز کا کہنا تھا کہ وہ احتجاجاً لال مسجد ميں بیٹھے ہیں۔ ”احتجاج سب کا حق ہے۔ ہم بھی یہاں احتجاج میں بیٹھے ہیں۔ عمران خان نے بھی تو کئی مہینے احتجاج کیا تھا، توکیا یہ ہمارا حق نہیں ہے۔‘‘
لال مسجد کے باہر آج بھی پولیس کی بھاری نفری تعينات ہے اور وہ مسجد میں آنے جانے والوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔ آبپارہ تھانہ اور مقامی ڈی ایس پی اقبال خان نے اس مسئلے پر بات کرنے سے معذرت کی۔ تاہم مقامی پولیس کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیوکو بتایا، ”مولانا کے یہاں خطاب اور آنے پر پابندی ہے۔ ہم یہاں صرف اس ليے ہیں کہ کوئی باہر سے ماضی کی طرح نہ آ جائے یا اندر موجود لوگ قانون کی خلاف ورزی نہ کریں۔‘‘
کئی ناقدین موجودہ صورت حال کو کشیدہ قرار دے رہے ہیں لیکن پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی، جنہوں نے کل مولانا عبدالعزیز سے ملاقات بھی کی تھی، نے تصادم کے امکان کو بالکل مسترد کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مولانا بھی کوئی غیر قانونی کام نہیں چاہتے اور حکومت بھی قانون سے ہٹ کر کوئی کام کرنا نہیں چاہتی۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اگر کوئی قانون شکنی کرتا ہے تو قانون حرکت میں آئے گا۔ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ مدرسہ تعمیر کیا جائے اور مولانا عزیز اس فيصلے پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔ تو انشاء اللہ معاملہ بات چیت سے حل ہو جائے گا۔ میڈیا کا کچھ حصہ بلا وجہ کشیدگی کا تاثر دے رہا ہے۔ مجھے تصادم کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔‘‘
حکومتی پابندی کے باوجود مولانا عبدلعزیز نے آج بھی جمعہ کا خطبہ لال مسجد میں دیا۔ ناقدین کے خیال میں حکومت کو یہ مسئلہ جلد از جلد حل کرنا چاہیے کیونکہ جتنا یہ مسئلہ طول پکڑے گا، اتنا ہی یہ پیچدہ ہوتا جائے گا۔