کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سرکلر ریلوے کیس میں 5 ماہ میں تمام کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہےکہ سرکلر ریلوے 6 ماہ میں بحال کرنی پڑے گی۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے کے پلان پر فوری کام شروع کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ منصوبے کی منظوری اور دیگر امور کو فوری حل کیا جائے۔
عدالت نے سندھ حکومت کو ریلوے کو مکمل سہولت فراہم کرنے اور سیکریٹری ریلوے کو صوبائی حکومت سے مکمل تعاون کا بھی حکم دیا۔
عدالت نے ہدایت کی کہ منصوبے پر تمام کارروائی 5 ماہ میں مکمل کی جائے اور 2 ہفتے میں چین سے بھی مشاورت مکمل کی جائے۔
دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کام تب شروع ہوگا جب پیسے ہوں گے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے ملک میں ریلوے خود نہیں بنا سکتے تو کیا کرسکتے ہیں، 72 سال میں اتنی قابلیت نہیں ہوئی، دنیا کہاں چلی گئی، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ کو بلا کرپوچھ لیتے ہیں کام کون کرے گا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ چینی سفیر سے ملاقات کے بعد رقوم اور منصوبے پر حتمی جواب دیں گے، سی پیک کی وجہ سے سرکلر ریلوے کی بحالی چائنیز کررہے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل کے مؤقف پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سرکلر ریلوے 6 ماہ میں بحال کرنی پڑے گی، ہم نے فیصلہ گزشتہ سال دیا، آپ مذاق کرتے آرہے ہیں، آپ لوگوں نے خود سارا نیٹ ورک جام کیا ہوا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کراچی کو نہ بڑھائیں، نئے شہر آباد کریں، اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کوئی نئی غیرقانونی تعمیرات نہیں ہورہی۔
ایڈووکیٹ جنرل کے جواب پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایسا نہیں آپ کو معلوم نہیں، گزشتہ ایک سال سے یہ کہہ رہے ہیں، میں کل ناظم آباد گیا بہت دکھ ہوا، سخی حسن قبرستان جاتے ہوئے حالت دیکھی تو دکھ ہوا، گندگی ہی گندگی، ٹوٹی ہوئی سڑکیں دیکھیں، ہر طرف کچرا ہی کچرا، معلوم ہے نارتھ ناظم آباد کیا تھا، ماضی کے سب سے خوبصورت علاقے کے ساتھ کیا کررہے ہیں، اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جی معلوم ہے اور احساس بھی ہے۔
سیکریٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ ریلوے زمینوں پر قبضہ گروپ ہے جو ماضی میں فعال ہوا، کالا پل سے 4 کلو میٹرپرقبضہ ہے، لوگ بیٹھے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے کیسے لوگ ہیں، قبضہ کون ختم کرائے گا، پہلے عمارتیں بنائیں لوگوں کو منتقل کریں پھر قبضہ خالی کرائیں، کراچی میں جو ہورہا ہے اس پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔