سندھ کے سرکاری محکموں میں خریداری، افسر شاہی نے قواعد و ضوابط سے بچنے کا راستہ نکال لیا

Office

Office

کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے مصداق سندھ کی افسر شاہی نے سرکاری محکموں میں خریداری کے لیے لازمی قوائد و ضوابط سے بچنے کا طریقہ بھی نکال لیا اور اس مد میں ہر سال لاکھوں روپے کے اخراجات کو جاری رکھا ہوا ہے۔

سندھ پبلک پروکیورمنٹ رولز 2010 کے تحت ایک لاکھ روپے سے اضافی رقم کی خریداری سے پہلے لازمی ہے کہ متعلقہ اتھارٹی سے منظوری حاصل کی جائے اور اس کی سندھ پبلک پروکیورمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے تشہیر کی جائے تاہم افسرشاہی نے مذکورہ قواعد و ضوابط سے بچنے کا طریقہ یہ نکالا کہ ہر خریداری کے لیے منظور شدہ رقم کو ٹکڑوں کی صورت میں خرچ کیا جائے اور یہ رقوم اتنی نہ ہوں کہ ان پر مذکورہ قواعد و ضوابط کا اطلاق ہوسکے۔

اس بات کا انکشاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ میں کیا گیا ہے جس میں مختلف محکموں کی جانب سے اختیار کیے گئے اس طریقہ کار کی نشاندہی کی گئی ہے، رپورٹ خاص طور پر محکمہ آبپاشی، محکمہ داخلہ، محکمہ صحت، محکمہ تعلیم، محکمہ پاپولیشن ویلفیئر، محکمہ سوشل ویلفیئر، محکمہ اوقاف، محکمہ تحفظ ماحولیات اور محکمہ بورڈ آف ریونیو کا ذکر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ آبپاشی نے مالی سال 2016-17 اور 2017-18 کے دوران چار کروڑ 86 لاکھ روپے کی رقم اس طریقہ کار کے تحت ٹکڑوں میں تقسیم کرکے خرچ کی جس کے لیے محکمے نے نہ تو متعلقہ اتھارٹی سے منظوری حاصل کی اور نہ ہی اس کی پرنٹ میڈیا اور سندھ پبلک پروکیورمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ کے ذریعے تشہیر کی اور اتنی بڑی رقم کے ٹینڈ ر ہی طلب نہیں کیے گئے، اسی طریقہ کار کے تحت محکمہ داخلہ نے مالیاتی سال 2016-17 میں دو کروڑ 56 لاکھ روپے کی رقم کی خریداری کی، اسی عرصے میں محکمہ بہبود آبادی نے اس طرح 27 لاکھ روپے خرچ کیے۔

محکمہ سماجی بہبود نے 96 لاکھ روپے، محکمہ تعلیم نے 50 لاکھ روپے، محکم اوقاف نے 67 لاکھ روپے، محکمہ ماحولیاتی تحفظ نے 78 لاکھ روپے، محکمہ صحت نے 14 کروڑ 83 لاکھ روپے اور بورڈ آف ریونیو نے 2 کروڑ 18 لاکھ روپے کی رقم خرچ کی۔

ایکسپریس کی جانب سے موقف حاصل کرنے کے لیے سیکریٹری خزانہ حسن نقوی سے اور سیکریٹری محکمہ ترقی و منصوبہ بندی ڈاکٹر شیریں مصطفیٰ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن دونوں کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا، جبکہ سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین غلام قادر چانڈیو نے ایکسپریس کو بتایا کہ کمیٹی کے سامنے ابھی ابھی تک یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا، وہ متعلقہ افسران سے اس معاملے سے متعلق ضرور جواب طلبی کریں گے۔