آخرکار ہمارے وزیر اعظم صاحب نے یہ اعتراف کر ہی لیا ہے کہ ملک میں مہنگائی کا بڑھنا حکومتی لاپرواہی ہے اور چینی ، گھی آٹا کا بحران بھی دراصل ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے جس کو بے چاری عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔یہ خوش آئند بات ہے کہ حکمران وقت کو وطن عزیز میں دگر گوں معاشی صورتحال کا مکمل ادراک ہے اور انہیں تبدیلی کا سنہرا خواب دیکھنے والے پاکستانیوں کا بھی احساس ہو گیا ہے کہ وہ قسم کے شدید حالات سے دو چار ہیں وگرنہ یہاں تماٹر 300 روپے کلو مل رہے ہو ، اور آٹا مہنگا ہونے کی وجہ سے ناپید ہو جائے وہاں 70فیصد سے زائد آبادی جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہوں اس کے لئے روٹی ملنا بھی مشکل بنا دی جائے ۔اوپر سے موصوف وزیر خزانہ ٹماٹر پندرہ روپے کا نعرہ لگا کر نئے پاکستان کے نام پر ووٹ ڈالنے والی بھولی عوام کا مذاق اڑاتے رہیں اور معاون خصوصی اطلاعات بھی پیچھے نہیں رہی انہوں نے فی کلو آٹا پانچ روپے قیمت بتا کر ملک کے غریبوں کا خوب مذاق اڑا یا۔وزیر اعظم کے نو رتنوں پر مشتمل ہرفن مولا کابینہ ٹیم تو ”سب اچھا”کی رپورٹ دینے میں ہی سرگرم رہتی ہے ۔
شدید سردی سے بچانے کے لئے اپنے بچوں کو گرم کپڑے دلوانے کی سکت نہ رکھنے والے ایک مفلسی کے مارے ہوئے لاچار و بے بس باپ کی خودکشی بھی حکمرانوں کے دلوں کا نہ ہلا سکی البتہ اتنا ضرور ہوا کہ سوشل میڈیا اور ہمارے ٹی وی چینلز کو اپنی ریٹینگ بڑھانے کیلئے ایک خبر ضرور مل گئی تھی ۔لاہور میں صحت انصاف کارڈ تقسیم کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مجھے سب پتہ چل گیا ہے کہکس نے مہنگائی کر کے فائدہ اٹھایا، آٹا چینی مہنگا ہونے میں ہماری کوتاہی ہے یہ میں مانتا ہوں، انکوائری ہور ہی ہے مہنگائی سے پیسا بنانے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم اب ان معاملات میں کیا کرتے ہیں۔؟انہوں نے کہا کہ حکومت کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مہم چلائی جارہی ہے۔ ٹی وی چینلز کے لوگ مائیک پکڑ کر پہنچ جاتے ہیں، غریب سے پوچھتے ہیں مہنگائی ہے؟ وہ کہتا ہے ہاں مہنگائی ہے، پھر پوچھتے ہیں کہاں گیا نیا پاکستان؟ ۔ انہوں نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا کوئی وعدہ ان کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا، ان کا مقصد ریاستِ مدینہ کے اصولوں پر نظامِ مملکت کو استوار کرنا تھا۔کپتان نے اگرچہ یہ ثابت کرنے کی بہت کوشش کی کہ ان کے پاس قابل اور ماہر ٹیم ہے، لیکن ان کی ٹیم کی بری کارکردگی نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے پاس حکومتی ٹیم بہت کمزور اور نااہل ہے۔ ان پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ حکومتی وزراء اپنی وزارتوں اور متعلقہ محکموں میں کام کرنے سے زیادہ اپوزیشن کے خلاف بیان بازی کر کے کپتان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے وہ اپنے کام سے مخلص نہیں، انھیں اپنی ذمے داری کا احساس نہیں ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پاکستان میں تبدیلی کا خواب ایک ڈرائونے خواب میں تبد یل ہو کر رہ جائے گا ۔چنانچہ آٹے اور چینی کے حالیہ بحران میں اپنی حکومت کی کوتاہی کو تسلیم کرکے اس امید افزا امکان کا دروازہ کھولا ہے کہ مہنگائی کا سبب بننے والی حکومتی پالیسیوں میں اب خاطر خواہ تبدیلی عمل میں آئے گی اور اس کے مفید نتائج کو عوام میں نچلی سطح تک منتقل کرنے کا یقینی اہتمام بھی کیا جائے گا۔ کیونکہ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ”تحقیقات جاری ہے جس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ پائے گا”۔ مقامِ شکر ہے کہ وزیراعظم کو بھی اصل حقیقت کا ادراک ہوگیا جس کے بعد یہ توقع بیجا نہ ہوگی کہ اب مہنگائی کے اصل اسباب کے تدارک اور اس بحران سے اربوں روپے کا ناجائز منافع کمانے والے حقیقی ذمہ داروں کے تعین کے علاوہ ان کے خلاف قرار واقعی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی تاکہ قوم کو پھر کبھی ایسی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تحقیقات کا یہ عمل غیر ضروری طور پر طویل نہ ہو اور اسے حتی الامکان کم سے کم وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
بلا شبہ اشیاء خوردنی کے بحران پر کوتاہی کا اعتراف یقیناً ایک عمدہ مثال ہے اور اس سے اصلاح کا بھی پہلو نکلتا ہے کیونکہ کسی خرابی کی ذمہ داری قبول کر لینے کی صورت میں ہی اصلاحی اقدامات کرنے کا عزم ابھرتا ہے۔وہیں انکوائری کے نام پر قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کرنے والی کمیٹی کیخلاف تادیبی کارروائی بھی ضروری ہے۔وزیر اعظم مہنگائی ہونے کا اعتراف تو کررہے ہیں مگر ذمہ داران کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی۔ آٹا اور چینی کا بحران پیدا کرنے والے حکومتی صفوں میں موجود ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ریلیف پیکیج اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔گردشی قرض 800 ارب روپے سے تجاوز کرکے 1900ارب تک پہنچ چکا ہے۔ تحریک انصاف کی ناقص پالسیوں کی بدولت عوام کو تاریخ کی بد ترین مہنگائی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں 70لاکھ سے زائد افراد بے روزگار اور 10کروڑ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ جن وعدوں اور دعوئوں کے ساتھ تحریک انصاف حکومت میں آئی تھی۔ وہ پورے نہیں ہوسکے۔معاشی لحاظ سے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔
ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص پریشان حال ہے۔ اطلاعات کے مطابق لاکھوں ٹن گندم اور چینی ان ہی مصاحبوں کے گوداموں میں پڑی ہے اور ان کی ملی بھگت سے لاکھوں ٹن آٹا اسمگل کیا جاچکا ہے۔ آٹے کا افغانستان میں ہی نہیں بلکہ سمندری راستے سے سری لنکا اور دیگر ممالک میں آٹا اسمگل ہونا ایک ایسی تشویشناک بات ہے اس کیلئے اعلیٰ سطحی کمیشن بنا کر تمام ذمہ داروں کو قانون کے کٹہڑے میں لاکر کھڑا کرنا بھی حکومت کے فرائض میں آتا ہے۔ جبکہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے یوٹیلٹی سٹورز پر بھی گھی اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے،دیہاتوںمیں رہنے والی 70فیصد غریب آبادی کی یوٹیلیٹی سٹورز تک پہنچ ہی نہیں، ملک میں پناہ گاہیں اور لنگر خانے کھول کر غریب عوام کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
آٹے اور چینی کے بحران پیدا کرنے والے حکومتی صفوں میں اور وزیر اعظم کے ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے ملکی معشیت آئی سی یو میں چلی گئی ہے ، غربت کی چکی میں پھسنے والوں کا بڑھتی ہوئی منہ زور مہنگائی نے کچل کر رکھ دیا ہے ۔خدشہ ہے کہ وزیر اعظم پتہ ہی لگاتے رہیں گے اور عملی اقدامات کی جانب توجہ نہیں دی جائے گی ۔یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کب تک ریلیف کے نام پر لالی پاپ دے کر لوگوں کو بہلایا جا تا رہے گا؟۔تقریباً چار ماہ بعد اس حکومت کو اپنا دوسرا بجٹ بھی پیش کرنا ہے ۔ یعنی جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنے والے اکژیتی طبقے کو مہنگائی اور بحرانوں کے مزید جھٹکوں کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔