پاکستان اس وقت دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے ،ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی مختلف سماجی برائیوں کا سبب بھی بن رہی ہے ،چائلڈ لیبر،بچوں کا استحصال ،بے روزگاری ،ناخواندگی ،انتہاپسند ی جیسے مسائل کا سامنا وطن عزیز پاکستان کو ہے ، ایک سروے کے مطابق جنوبی ایشیا میں آبادی میں اضافہ کے لحاظ سے پاکستان سب سے آگے ہے جو کہ 2.4 فیصد کی خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے،جبکہ دیگر اسلامی ممالک نے افزائش آبادی کو قابو میں لانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ہمارے ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش اور ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے،وطن عزیز پاکستان میں شرح افزائش جس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔
اگر یہ سلسلہ برقرار رہا تو 2030 تک صحت کے مراکز، تعلیمی اداروں ،ملازمتوں اور رہائشی مکانات کی ضرورت آج کے مقابلے تین گنا زائد کی ہوگی ہماری برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ملک میں معاشی مشکلات میں اضافہ کا سبب ہے،گزشتہ روز راقم الحروف کو محکمہ بہبود آبادی ضلع اوکاڑہ کے زیر اہتمام “خاندانی منصوبہ بندی اور علما کرام کا کردار ” کے موضوع پر سیمینار میں بطور مہمان اعزاز مدعو کیا گیا جس میں مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے علما کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی ، جس کی صدارت ممتاز عالم دین قاضی محمد اسلم اوکاڑوی نے کی ،سیمینار سے ڈسٹرکٹ خطیب مہتمم جامعہ عثمانیہ قاری سعید عثمانی، راقم الحروف ( محمد مظہررشید چودھری)، ڈسٹرکٹ آفیسر محکمہ پاپولیشن نائلہ محبوب ، ڈسٹرکٹ ڈیموگرافر محمد بخش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بچے کی خوراک، تعلیم و تربیت، رہائش، لباس کی فراہمی والدین کی ذمہ داری ہے ، بچوں کی تعداد اور پیدائش میں مناسب وقفہ والدین کی باہمی رضا مندی سے ہونا چاہیے، ماں کی صحت کا خیال رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
قرآن مجید میں واضح احکامات ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کو دو سال تک دودھ پلائیں جس سے قدرتی طور پر بچے کی پیدائش میں وقفہ اور صحت مند معاشرہ تشکیل پا تا ہے ،مقررین نے کہا کہ گزشتہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 207,774,520کروڑ تھی موجودہ وقت میں ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی 22کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے ،راقم الحروف( محمد مظہررشید چودھری) نے کہا کہ اس وقت دنیا بھر کی آبادی 7.6 ارب سے زائد ہے، 2030 تک آبادی میں مزید ایک ارب اضافہ متوقع ہے،اس صدی کے اختتام تک دنیا کی آبادی 11.2 ارب ہوجائے گی،پاکستان میں اس وقت 20کروڑ 77 لاکھ سے زائد آبادی موجود ہے جو 2030 تک بڑھ کر 25 کروڑ سے زائدہوجائے گی،دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرکے خاندان کی بہتر منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ممتاز عالم دین قاضی محمد اسلم اوکاڑوی اورڈسٹرکٹ خطیب قاری سعید عثمانی نے کہا کہ دین اسلام میں مائوں پر دو سال تک بچوں کو دودھ پلانا فرض قرار دیا گیا ہے۔
بیٹے اور بیٹی کو یکساں توجہ اور برابری کا درجہ اور ماں کی صحت کا خیال رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے، دین کی رو سے گھریلو معاملات کو اپنے وسائل کے مطابق ترتیب دینا ہی خاندانی منصوبہ بندی ہے تاکہ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت ہو سکے اور ماں کی صحت بھی متاثر نہ ہو،وقت کی ضروت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول کرنا ہے ہمیں بچوں کو معاشرے کا بہترین اور کار آمد شہری بنانے میں کردار ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم وسائل کے حساب سے پچوں کی پیدائش میں منصوبہ بندی کریںاس سے غربت میں کمی اور خوشحال معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے گی۔
بچے اور بچیوں کے فرق کو بھی ختم کرنا ہوگا اور جتنے حقوق لڑکوں کے ہیں اتنی ہی اہمیت لڑکیوں کی بھی ہونی چاہیئے، انہوں نے کہا کہ نئے شادی شدہ جوڑوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے بچوں کی پیدائش میں صحت کے ساتھ ساتھ دینی احکامات پر بھی عمل اور بچوں کو دینی احکامات کی روشنی میں زندگی گزارنے کی ترغیب دینا بہت ضروری ہے ،مقررین نے کہا کہ بچوں کی پیدائش پر اسلام اور شریعت میں کوئی پابندی نہیں مگر وسائل سے بڑھ کر بچوں کی پیدائش ہوتو وہ معاشرے میں وبال بن جاتے ہیں بچوں کی پیدائش میں شرعی احکامات کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے، اصولوں کی پاسداری بھی ضروری ہے۔
ماں اور بچے کی صحت کا خیال رکھنا گھر کے سربراہ (مرد)کے لئے انتہائی ضروری ہے خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت بہت زیادہ ہے اس سلسلے میں معاشرے کے تمام طبقے کو ملکر کردار ادا کرناہوگا،سیمینار میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر محکمہ بہود آبادی اوکاڑہ محمد ارسلان ندیم ،انچارج ای لائبریری محمد ابراھیم وڑائچ ، اسسٹنٹ لائبریرین زاہد احسن ،نوجوان صحافی چودھری عدنان اعجاز ودیگر نے شرکت کی۔