افغان امن معاہدے پر امریکا اور امارات اسلامیہ کے درمیان دستخط سے قبل صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کے دوبارہ منتخب قرار دیئے جانے کے بعد نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔افغان طالبان نے صدارتی اعلان کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے دیا، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے کا اعلان کردیا۔ واضح طور پر افغانستان میں نسلی بنیادوں پر سیاسی تقسیم نے افغان امن عمل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ دوحہ افغان مفاہمتی عمل مذاکرات کے چار نکات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کے بعد مُردہ ہونے والے مذاکرات طویل وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئے، تاہم دونوں فریقین کی جانب سے سیز فائر نہیں ہوسکا۔ گذشہ دنوں اس اَمر پر اتفاق رائے پایا گیا کہ رواں ماہ فروری کے آخر میں معاہدے پر قطر میں دستخط ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
تاہم یہ اطلاعات بھی زیر گردش رہیں کہ افغان طالبان کی جانب سے ایک ہفتے کی جنگ بندی ہوگی،جس میں دیکھا جائے گا کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کس فریق کی جانب سے ہوتی ہے اور کس فریق کا، کس علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔امریکی و افغان اعلیٰ حکام بارہا ان خدشات کا اظہار کرچکے ہیں کہ افغان طالبان، مسلح مزاحمت ختم ہونے کے بعد غیر موثر ہوجائیں گے اور افغانستان میں امریکا اور کابل انتظامیہ کو نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔اس حوالے سے بڑے منظم انداز میں پروپیگنڈا بھی کیا گیا جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے، تاہم اس حوالے سے امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ کم ازکم پہلے مرحلے میں افغان طالبان کے ساتھ بامعنی مذاکرات ہوجائیں، کیونکہ امارات اسلامیہ اس وقت افغانستان میں غیر ملکی افواج و کابل انتظامیہ کے خلا ف سب سے بڑی مزاحمتی قوت ہے۔ جسے درپردہ ایران، روس سمیت کئی ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔
افغانستان الیکشن کمیشن نے افغان صدر کے لئے اشرف غنی کی کامیابی اعلان کردیا اور رائج قانون کے مطابق سادہ اکثریت سے اشرف غنی افغانستان کے دوبارہ صدر منتخب ہوچکے ہیں، تاہم اس وقت یہ اعلان تنازع کا باعث بن چکا ہے۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط کے بعد امارات اسلامیہ امریکی افواج کے خلاف سیز فائر کا اعلان کرے گی اور پھر دس روز کے اندر بین الافغان مذاکرات منعقد کئے جائیں گے، جو افغانستان کے نظام و انصرام کے حوالے سے اتفاق رائے حاصل کریں گے۔
اس وقت افغانستان کے60 فیصد سے زاید علاقہ افغان طالبان کے زیر قبضہ ہے، جب کہ 20 تا 30فیصد علاقے حکومتی اتحادیوں کے پاس ہیں، غنی انتظامیہ صرف کابل کی حد تک محدود ہے۔ جب کہ عبداللہ عبداللہ کو کو تاجک برداری کی حمایت حاصل ہے۔ صدر اشرف غنی نے افغان طالبان سے مذاکرات کے لئے امن کونسل کی تشکیل ازسرنو کرنے کا عندیہ دیا ہے، کیونکہ امن کونسل کے اراکین، صدارتی نتائج سے پہلے منتخب کرائے کئے گئے تو اس کی تشکیل پر سوالیہ نشان اٹھے، اب فروری کے آخری ہفتے میں نئی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے افغان امن کونسل کی ازسرنو تشکیل دی جائے گی، لیکن یہاں دوبارہ یہی معاملہ درپیش ہے کہ افغان طالبان، اشرف غنی کو صدر و حکومتی افغان امن کونسل کو تسلیم نہیں کرتی۔
نیز انتخابات کے نتائج کو جعلسازی و دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے اس اَمر پر مُصر ہے کہ افغان عوام کی کثیر تعداد نے انتخابی عمل میں حصہ ہی نہیں لیا اور موجودہ انتخابات، افغانستان کی تاریخ کے کم ترین ووٹ ڈالنے کی شرح پر مبنی تھے، جس وجہ سے ان انتخابات کو افغان عوام کے تمام طبقات کی نمائندگی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔دوسری جانب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے غنی انتظامیہ کے خلاف اپنی حکومت بنانے کے اعلان کرنے کے بعد سنگین تنازعے کو جنم دے دیا ہے، جس کی وجہ سے افغانستان میں امن کے مستحکم قیام کے لئے حالات مخدوش نظر آتے ہیں۔
افغانستان کے حالات پر خصوصی نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ افغا ن طالبان اور امریکا کے درمیا ن اصولی بنیادوں پر طے پانے والے معاہدے کے افغانستان میں فوری طور پر حالات معمول پر آنے میں وقت لگے گا، کیونکہ افغان طالبان کے مخالف چھوٹے جنگجو گروپوں کو کنٹرول کرنا، ایک نئی خانہ جنگی کا سلسلہ شروع کرسکتی ہے خاص کر جس طر ح اشرف غنی دوبارہ کامیاب قرار دلوائے گئے ہیں، اس کے بعد خود کابل انتظامیہ کے سابق شراکت داروں میں ایک ایسے تنازع ابھر رہا ہے جو افغانستان میں امن کی پائدار راہ کے مقابل مشکلات پیدا کرے گا، امریکا اس حوالے سے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ و اشرف غنی کے درمیان مصلحانہ کردار ادا کرسکتی تھی، جس طرح ماضی میں صدارتی عہدوں کو دونوں فریقین میں تقسیم کردیا گیا تھا، تاہم اختیارات کی رسہ کشی کی وجہ سے غنی انتظامیہ نے امریکا احکام کو بجا لانے میں کسی پس و پش کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔
چونکہ غیر ملکی افواج کے خلاف مزاحمتی کاروائیوں میں تیزی آتی جارہی ہے اور نسلی گروہ بندیاں امریکی فوجیوں کے لئے جانی و مالی نقصان کا سبب بھی بن رہی ہے اس لئے امریکا کی خواہش ہے کہ وہ اپنے باقی ماندہ فوجیوں کو افغان طالبان سے طے شدہ اوقات کے مطابق افغانستان سے نکال لے، جس میں پہلا انخلا، پانچ سے چھ ہزار فوجیوں کا ہے۔ یہ معاہدہ امریکی صدر کے انتخابی نعرے کی کامیابی بھی تصور کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنے انتخابی منشور کے وعدے کو پورا کیا۔29فروری کو امریکا و افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد افغانستان ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوجائے گا، جہاں حکومت رٹ برقرار رکھنے کے لئے اسٹیک ہولڈر کو اپنا مینڈیٹ ثابت کرنا ہوگا کہ افغان علاقوں میں کس گروپ کی زیادہ عمل داری ہے، اصل امتحان امریکی فوج کے انخلا کے بعد قرار دیا جارہا ہے۔