اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) جب سے دی نیوز نے انکشاف کیا ہے کہ فیصل واوڈا نے انتخابات لڑنے کے وقت اپنی امریکی شہریت چھپائی تھی، اب یہ عوام کے علم میں ہے۔ تاہم انہوں نے صرف اپنی دہری شہریت کے بارے میں جھوٹ نہیں بولا۔ ان کی تعلیمی اسناد بھی مشکوک ہیں۔
ماضی میں انہوں نے امریکی یونیورسٹی سے گریجویٹ ہونے کا دعویٰ کیا تھا لیکن ان کے کاغذات نامزدگی سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے صرف بی کام کیا ہے۔ مشکوک تعلیمی اسناد کے علاوہ وفاقی وزیر کی مبینہ سابقہ اہلیہ نے جعلی نکاح نامہ تیار کرنے کے کچھ سنگین الزامات عائد کردیئے ہیں۔
واوڈا کو 17 فروری کو ان کی بیچلر ڈگری، ان کے ٹیکس ریکارڈ اور جعلی نکاح نامہ کے الزامات کے بارے میں ایک تفصیلی سوالنامہ بھیجا گیا تھا۔انہیں اس سوالنامے کے حوالے سے بارہا یاد دہانی کرائی گئی لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔
فیصل واوڈا کو آرٹیکل 63 (1) (سی) اور 62 (1) (ایف) کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی دہری شہریت چھپانے اور اپنی امریکی شہریت سے متعلق حلف اٹھانے کے سنگین الزامات پر عدالتی مقدمات کا سامنا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی دہری شہریت کے کیس کی سماعت آج (پیر کو) کرے گی۔ یہ جاننے کے لئے کہ کیا دہری شہریت کو چھپانا اور حلف اُٹھانا واوڈا کا واحد مکروہ فعل ہے؟
دی نیوز نے پوری طرح سے تحقیقات کیں اور ان کی تعلیمی اسناد اور انکم ٹیکس کے حوالے سے ان کے دعوؤں کے بارے میں حیرت انگیز تضادات پائے گئے۔ ایک مقدمے میں واوڈا نے حلفاً دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی آف نیو پورٹ امریکا سے بیچلر کیا ہے۔
تاہم ان کے کاغذات نامزدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے بی کام کیا ہے۔ انہوں نے عدالت کے روبرو دعویٰ کیا کہ سال 2009 میں انہوں نے 5.16؍ ملین روپے ٹیکس ادا کیا۔ تاہم ایف بی آر کے آن لائن اعداد و شمار میں اس طرح کا کوئی ریکارڈ نہیں دکھایا گیا ہے۔
2009 میں فیصل واوڈا کنسٹرکشن ٹیکس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے صفر ٹیکس ادا کیا۔ اسی طرح واوڈا کو اپنی سابقہ اہلیہ کے ذریعے کچھ سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے واوڈا سے کبھی شادی نہیں کی اور وفاقی وزیر نے انہیں بدنام کرنے کیلئے جعلی نکاح نامہ تیار کروایا ہے۔
واوڈا نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کیلئے اپنی مبینہ سابقہ اہلیہ کے ساتھ اپنی شادی کے دستاویزی ثبوت فیملی کورٹ کے سامنے پیش کیے تھے۔
انہوں نے سابقہ اہلیہ کے ان کے سابق شوہر کے ساتھ نکاح فسخ ہونے کا سرٹیفکیٹ پیش کیا اور اپنے اور اہلیہ کے درمیان ہونے والی شادی کا نکاح نامہ بھی پیش کیا۔ واوڈا نے فیملی کورٹ کو آگاہ کیا کہ ان سے شادی کرنے کے چند ماہ کے اندر ہی سابقہ اہلیہ اپنے سابق شوہر کے ساتھ دوبارہ مل گئی۔
تاہم فیصل واوڈا اور ان کی سابقہ اہلیہ کے درمیان خلع نامے کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ کیسے مل سکتی ہے اگر واوڈا نے خلع کے ذریعے تنسیخ نکاح نہیں کیا۔
قانونی طور پر کیا وہ اپنے پہلے شوہر سے شادی کے فسخ سرٹیفکیٹ (خلع) یا دوسرے شوہر (واوڈا) سے طلاق کے بغیر دوبارہ مل سکتی ہے؟ 02 فروری ، 2011 کو فیصل واوڈا نے ریاست کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کے سامنے فوجداری ضمانت کی درخواست نمبر 143 دائر کی۔
واوڈا نے اپنی درخواست میں حلف کے تحت یہ کہا کہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں جنہوں نے نیو پورٹ یونیورسٹی امریکا سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وزیر کی حلف کے تحت غیرملکی تعلیم کا خود ہی انکار ہوجاتا ہے۔
11 جون 2018 کو انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اپنے کاغذات نامزدگی کرائے جہاں انہوں نے تعلیم کے کالم میں لکھا کہ انہوں نے بی کام کیا ہے۔ اس حوالے سے پوچھنے کیلئے وزیر سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔
اسی ضمانت کی درخواست میں واوڈا نے خود کو ایک مثالی تاجر ثابت کرنے کیلئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے صرف 2009 میں انکم ٹیکس کے حساب سے 51 لاکھ، 69 ہزار اور 308 روپے ادا کئے۔ تاہم ایف بی آر کے آن لائن ٹیکس کے اعداد و شمار میں سال 2009 میں فیصل واوڈا کا کوئی ٹیکس ریکارڈ نہیں دکھایا گیا ہے۔
حتیٰ کہ فیصل واوڈا کنسٹرکشن کا ٹیکس ریکارڈ سال 2009 کے دوران زیرو ٹیکس ظاہر کرتا ہے۔ یہ پوچھنے کیلئے واوڈا سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے اس پر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
ان سے کہیں زیادہ سنگین الزامات ان کی سابقہ اہلیہ نے لگائے جو انہیں عدالت لے گئیں اور دعویٰ کیا کہ واوڈا نے جعلی نکاح نامہ تیار کیا۔ یہ مقدمہ کراچی کی فیملی کورٹ میں دائر کیا گیا اور دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے۔