فرقوں، گروہوں اور نسلی امتیاز میں بَٹی اُمتِ مسلمہ جس ملغوبی اور انحطاط سے آج گزر رہی ہے، پوری اسلامی تاریخ میں اِس کی مثال نہیں ملتی۔ عالمِ اسلام جبرِمسلسل کی زَد میں ہے جس کی بنا پر شیرازہ بکھری مِلّت پارہ پارہ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کافلسطین پر ”معاہدہ امن” ملّتِ اسلامیہ کو قبول نہیں لیکن طاغوت سے خوف کی اس فضاء کوئی دبنگ آواز سنائی نہیں دیتی۔ کشمیر بھارتی مظالم کی آماجگاہ بن چکا لیکن سوائے ترکی، ملائشیا اور ایران کے کوئی مسلۂ کشمیر پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ دسمبر 2019ء میں ملائشیا کے شہر کوالا لمپور میں ہونے والی سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ ستمبر 2019ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر پاکستان، ترکی اور ملائشیا کے سربراہان نے باہم مل کر ہی اِس سمٹ کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا۔ کوالاالمپورسمٹ میں شرکت سے پہلے وزیرِاعظم پاکستان عمران خاں کی ریاض میں سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد سلمان سے ملاقات ہوئی جس کے بعد وزیرِاعظم نے سمٹ میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اُن کی جگہ وزیرِخارجہ پاکستان کی نمائندگی کریں گے لیکن وزیرِخارجہ بھی شریک نہیں ہوئے۔ اِس عدم شرکت سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ پاکستان نے سعودی عرب کے دباؤ پر اِس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے تو واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ایسا سعودی حکومت کے دباؤ پر کیا گیا۔ طیب اردگان کے اِس بیان کے بعد پاکستان اور سعودی عرب، دونوں کی طرف سے تردید سامنے آگئی۔ سعودی عرب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات باہمی وقار اور احترام پر مبنی ہیں، کسی دباؤ کا نتیجہ نہیں۔ اِس وضاحت کے بعد ملائشیاء کے وزیرِاعظم مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر طیب اردوان نے خاموشی ہی مناسب سمجھی۔ ماہِ رواں میں وزیرِاعظم عمران خاں نے ملائشیا کے دورے کے موقعے پر کوالا المپور میں عدم شرکت پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ بعض دوستوں کا خیال تھا کہ کوالاالمپور سمٹ اُمتِ مسلمہ میں نئی گروہ بندی کا باعث بن سکتی ہے۔ وزیرِاعظم کے اِس بیان کے بعد ایک دفعہ پھر تجزیوںاور تبصروں کے دَر وا ہوگئے۔
حقیقت یہی کہ ترکی ہمارا بے لوث برادر اسلامی ملک ہے جبکہ سعودی عرب کی پاکستان کے ساتھ الفت ومحبت میں بھی کبھی کمی نہیں آئی۔ سعودی عرب میں ہمارے مقدس ترین مقامات خانہ کعبہ اور روضۂ رسول ۖ ہیںجو دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن اور مرکزِ نگاہ ہیں۔ اِن مقامات کی حفاظت خادمین حرمین شریفین کے ذمہ ہے۔ اِسی لحاظ سے خادمین حرمین شریفین کا احترام اور دلی لگاؤ بھی ہر مسلمان محسوس کرتا ہے۔ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ رشتہ پہاڑوں سے اونچا اور سمندروں سے گہرا ہے۔ پاکستان میں حکمران خواہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، سعودی حکوت کی الفت ومحبت برقرار رہتی ہے۔ کسی بھی ابتلاء کی صورت میں سعودی عرب نے ہمیشہ دامے، درہمے، قدمے، سخنے، پاکستان کی مدد کی ہے۔ اگر نون لیگ کے دَورِ حکومت میں سعودی حکمرانوں نے ڈیڑھ ارب ڈالر میاں نوازشریف کی جھولی میں ڈالے تو عمران خاں کا دامن بھی ڈالروں سے بھر دیا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سودی حکمرانوں کی دوستی پاکستان کے ساتھ ہے نہ کہ کسی حکمران یا سیاسی جماعت کے ساتھ۔
سعودی عرب کے قدامت پرست معاشرے کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور اعتدال پسند اسلام کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے والے 35 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ہمارے وزیرِاعظم کے ساتھ باہمی احترام کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔ اُنہوں نے ازراہِ محبت عمران خاں کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے موقعے پر اپنا ذاتی شاہی طیارہ بھی پیش کیا۔ وہ پاکستان کے دَورے پر تشریف لائے تو وزیرِاعظم عمران خاں نے نہ صرف ایئرپورٹ پر اُن کا استقبال کیا بلکہ گاڑی خود ڈرائیو کرکے اُنہیں وزیرِاعظم ہاؤس لے کر آئے۔ استور میں حالیہ زلزلے کے متاثرین کے لیے کے لیے کنگ سلمان ریلیف فنڈ سے 3 ہزار کمبل ، 3ہزار مردانہ و زنانہ شالیں، شدید سردی سے بچنے کے لیے بچوں اور بڑوں میں موزے، دستانے اور ٹوپیاں تقسیم کی گئیں۔ پاکستان کے سردترین علاقوں میں 30 کروڑ روپے لاگت کا ”ونٹر پیکیج ” اِس کے علاوہ ہے جس سے 27 ہزار گھرانے مستفید ہو رہے ہیں۔ جب پاکستانیوں سے محبت کا یہ عالم ہو تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی حکمران اِس محبت کا ادراک نہ کرے۔
دوسری طرف ترکی نے بھی ہمیشہ آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی۔ باوجود اِس کے کہ پاکستان نے کوالاالمپور میں شرکت نہیں کی، وہاں کشمیر پر پرزور قرارداد منظور کی گئی۔ ترک صدر جناب طیب اردوان کا اِس ہفتے میں پاکستان کا دورہ اِس بات کی علامت تھا کہ کوالاالمپور سمٹ میں وزیرِاعظم کی عدم شرکت کے دُکھ کو جناب طیب اردوان نے دِل سے نہیں لگایا۔ اُنہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک دفعہ پھر مسلۂ کشمیر کو اپنا مسلۂ قرار دیا۔ تُرک قوم اب تک نہیں بھولی کہ تحریکِ خلافت کے دوران ہندوستان کی مسلم خواتین نے اپنے زیور تک ترک بہن بھائیوں کی نذرکیے تھے۔ شاید یہی وجہ ہو گی کہ جب جنوبی پنجاب میں خوفناک سیلاب آیا تو تُرک خاتونِ اوّل (طیب اردوان کی اہلیہ)نے اپنا نکلس بطور عطیہ سیلاب متاثرین کی نذر کیا (اُس نکلس پر بیتنے والی روداد ہم اپنے کالم میں پہلے ہی بیان کر چکے)۔ یہ سب عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے لیے سعودی عرب سے مفر ممکن ہے نہ ترکی سے۔ بدقسمتی سے سعودی عرب اور ترکی میں ایسی غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں جو مسلم اُمّہ کے ضعف میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
یہ بھی عین حقیقت کہ اِس وقت عالمِ اسلام جن حالات سے گزر رہا ہے، وہ انتہائی مخدوش اور ندامت کا باعث۔ باطل قوتیں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہیں۔ اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسلامی شناخت پر حملے ہو رہے ہیں، مسلم ممالک کو باہم دست وگریباں کرنے کے منصوبے تیار ہو رہے ہیں اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل چپکایا جا رہا ہے۔ اِن حالات میں پستی وناکامی اور ذلت ورسوائی مسلمانوں کا مقدر بنتی جا رہی ہے۔ ہم ذہنی طور پر مرعوب اور مغرب کے غلام بن چکے ہیں۔ شاندار اسلامی تاریخ رکھنے کے باوجود کسی کو ادراک ہی نہیں کہ فکری غلامی انسان کی حیثیت ومقام چھین لیتی ہے۔ غلامی کی اِن زنجیروں کو توڑے بغیر ترقی کا تصور بھی ناممکن۔ اگر غلامی کے آگے سر جھکا بھی دیا جائے تو پھر بھی بھلا نہیں ہوتاکہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
ہمیں ادراک کرنا ہو گا کہ ”لڑاؤ، تقسیم کرو اور حکومت کرو” ہمیشہ سے اقوامِ مغرب کی پالیسی رہی ہے۔ (متحدہ ہندوستان میں یہی پالیس اختیار کرکے تاجِ برطانیہ نے 100 سال تک حکومت کی)۔ دشمن ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ مسلم اُمّہ میں اختلاف وانتشار پیدا کرکے اُسے اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ سر اُٹھانے کے قابل نہ رہے۔ یمن ، شام، عراق، ایران، لیبیا، اُردن اور فلسطین اِسی انتشار کا شکار ہوئے، جس نے سرجھکا دیا وہ امان پا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اِس امن سے موت بدرجہا بہتر ہے۔
جب تک دشمن کی چالوں کو سمجھ کر اتحاد واتفاق کی کوشش نہ کی جائے، مسلم اُمّہ کبھی اُبھر کر سامنے نہیں آسکتی۔ اِس لیے ضروری ہے کہ فکری خودی اور غیرت وحمیت پیدا کرکے اتحاد ویگانگت کی فضاء پیدا کی جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو مسلم اُمّہ اقوامِ عالم میں اپنا مقام پیدا کر سکتی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ شیرازہ بکھری اقوام کبھی کامیابیوں سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ ”خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی۔ ہماری سرحدیں جغرافیائی نہیں، نظریاتی ہیں۔ ہمارا اللہ ایک، رسول ایک اور قرآن ایک۔ اِس لیے دنیا جہان میں جہاں کہیں بھی کوئی مسلمان بستا ہے، وہ ”قومِ مسلم” کا ایک فرد ہے جس کا دُکھ ہر مسلمان کا دُکھ اور تکلیف ہر مسلمان کی تکلیف۔ارضِ فلسطین ہو یا کشمیر، مظلوموں کی مدد ہر مسلمان کا فرضِ عین لیکن یہاں عالم یہ کہ مسلم اُمّہ خاموش۔ جس طرح مسلۂ کشمیر بتدریج وقت کی دھول میں گُم ہوتا جا رہا ہے، اُسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کا فلسطینیوں کو اعتماد میں لیے بغیر کیا جانے والا ”معاہدہ امن” بھی بروئے کار آجائے گااور اپنے ضعف کے ہاتھوں مجبور مسلم اُمّہ ”ٹُک ٹُک دیدم، دَم نہ کشیدم”کی عملی تصویر بنی رہے گی۔ اِس لیے ضرورت اِس امر کی ہے کہ سعودی عرب، ترکی، ایران اور مختلف دھڑوںمیں بٹے اسلامی ممالک اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر ایک صفحے پر اکٹھے ہوںکہ یہی حکمِ ربی ہے، یہی مطلوبِ رسولِ ہاشمی اور اِسی میں فلاح کی راہ نکلتی ہے۔