القدس (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے یہودی آباد کاری کے ایک زیر التوا متنازع منصوبہ پر عمل درآمد کا اعلان کیا ہے۔اس منصوبہ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے مشرقی القدس تقسیم ہوکر رہ جائے گا اور اس سے فلسطینیوں کی مجوزہ ریاست ناممکن ہوکر رہ جائے گی۔
نیتن یاہو نے اسرائیل میں پارلیمانی انتخابات سے صرف چھے روز قبل اس منصوبہ پر نظرثانی کا اعلان کیا ہے۔وہ انتخابات میں یہودی آبادکاروں کی حمایت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ اس منصوبہ کے تحت ای-1 نامی بنجر پہاڑی علاقے میں یہودی آبادکاروں کو بسانے کے لیے ساڑھے تین ہزار مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ اور اپنے یورپی اتحادیوں کے اعتراضات کے بعد اس علاقے میں 2012ء میں یہودی آبادکاروں کے لیے مکانات کی تعمیر کے اس منصوبہ کو منجمد کررکھا تھا۔یورپی ممالک اور دنیا کی دوسری طاقتوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبہ پر عمل درآمد سے اسرائیل کا فلسطینیوں کے ساتھ مستقبل میں امن معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اس سے اسرائیل کے زیر قبضہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کا علاقہ دو حصوں میں بٹ جائے گا اور اس کے مکینوں کی مشرقی القدس تک رسائی منقطع ہوکر رہ جائے گی۔
یادرہے کہ اسرائیل نے 1967ءکی جنگ میں غربِ اردن اور القدس پر قبضہ کیا تھا۔ فلسطینی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی صورت میں غربِ اردن اور غزہ پر مشتمل علاقوں میں اپنی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہوگا۔
نیتن یاہو نے منگل کے روز اپنی نشری تقریر میں کہا ہے:’’میں نے ای -1 میں 3500 مکانوں کی تعمیر کے منصوبے کو فوری طور پر شائع کرنے کی ہدایت کی ہے۔یہ منصوبہ پہلے ہی چھے سے سات سال سے تاخیر کا شکار ہے۔‘‘وہ اس کی منصوبہ بندی کے پہلے مرحلے کی بات کررہے تھے۔
ای-1 منصوبہ مقبوضہ بیت المقدس میں واقع سب سے بڑی یہودی بستی مآلے ایڈومیم کو وسعت دے دے گا اور یہ بستی مقبوضہ القدس سے مل جائے گی۔ یہ اس وقت شہر کے مرکز سے پندرہ منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے نیتن یاہو کے اعلان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے تمام سرخ لکیریں عبور کر لی ہیں۔انھوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔
واضح رہے کہ فلسطینی ، عالمی ادارے اور بیشترعالمی برادری مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔ صرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسرائیلی ریاست میں ان غیرقانونی یہودی بستیوں کو ضم کرنے کی حمایت کی ہے۔
نبیل ابورودینہ نے کہا کہ ’’ یہ ایک خطرناک پالیسی ہے۔ہم اس کو امن عمل کو تباہ کرنے کی کارروائی قرار دیتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ماہ اپنے مشہور مشرقِ اوسط امن منصوبہ کا اعلان کیا تھا اور اس کو صدی کی ڈیل قراردیا تھا۔اس کے تحت غرب اردن میں یہودی بستیوں پر اسرائیل کی خود مختاری کو تسلیم کیا گیا ہے۔اس میں ایک ایسی فلسطینی ریاست قیام کے تجویز پیش کی گئی ہے جو اسرائیل کی مرہون منت ہوگی۔اس کو محدود مالی اور انتظامی خود مختاری حاصل ہوگی۔ فلسطینیوں نے اس منصوبہ کو مسترد کردیا ہے اور اس کو اپنی اراضی ہتھیانے حربہ قراردیا ہے۔