اٹلی (اصل میڈیا ڈیسک) اطالوی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ’سکیورٹی ڈکری‘ یا حفاظتی فرمان کے تحت سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر درخواست گزار کو وطن واپسی کے مراکز منتقل کر کے انہیں ملک بدرکر دیا جائے گا۔ اس فرمان کو اٹلی کے سابق وزیر داخلہ ماتیو سالووینی نے 2018 ء میں نافذ کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی مناسبت سے اس متنازعہ حکم کو ‘سالووینی ڈکری‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
اٹلی کئی دہائیوں سے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے ایک آسان ابتدائی منزل رہا ہے لیکن اس فرمان کے نافذ ہونے کے بعد معاملات اب آسان نہیں رہیں گے۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ سیاسی پناہ سے متعلق قانون میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انسانی تحفظ کی کٹیگری ختم کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اطالوی شہریت دینے اور ختم کرنے کے نئے طریقے بھی وضع کیے جائیں گے۔
اس فرمان کے زد میں کئی ہزار لوگ آئیں گے۔ پاکستانی شہر سیالکوٹ کے رہائشی عارف (فرضی نام) بھی ایسے ہی لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں، جن کی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔
پاکستانی شہر سیالکوٹ کے رہائشی عارف (فرضی نام) بھی ایسے ہی لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں، جن کی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔
عارف کے مطابق وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں 2015 ء میں ایک خطرناک سفر کر کے یورپ میں داخل ہوئے۔ یہ سفر کئی مہینوں پر محیط تھا۔ اس دوران انہوں نے انتہائی کٹھن اور دشوار گزار راستے طے کیے جس میں منفی درجہ حرارت میں 20 گھنٹے تک پیدل سفر کرنا بھی شامل تھا، ”اسی راستے پر ہم سے پہلے گزرنے والے کچھ لوگوں کی لاشیں بھی نظر آئیں جنہیں دیکھ کر ایک لمحہ تو ہمت جواب دے گئی۔ ترکی سے یونان کے راستے یورپ میں داخل ہوئے اور پھر یونان سے مقدونیا، سربیا اور ہنگری تک پیدل سفر کیا۔ شدید مشکلات سے گزر کر ہم بالآخر جرمن شہر میونخ پہنچے، جہاں سے ہمیں لِمبرگ شہر کے پناہ گزین کیمپ میں بھیج دیا گیا۔‘‘
عارف کے مطابق ابتدائی کاغذی کارروائی کے بعد انہیں ڈھائی ماہ کا عارضی رہائشی کارڈ جاری کیا گیا اور رہائش بھی فراہم کر دی گئی۔ مگر جرمنی میں جب انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جنہیں سالہا سال سے سیاسی پناہ نہیں ملی تھی تو وہ جرمن حکام کو اطلاع دیے بغیر اٹلی چلیے گئے، جہاں وہ بلزانو نامی شہر میں داخل ہوتے ہوئے پکڑے گئے۔ اس موقع پر پولیس نے ان کے فنگر پرنٹ چیک کیے تو انہیں واپس جرمنی جانے کا کہا گیا مگر وہ دوبارہ اٹلی داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور پناہ گزین کیمپ میں اندراج کرا دیا، ”مجھے چھ ماہ کا رہائشی اجازت نامہ دیا گیا، جس کی تجدید ہوتی رہی تاہم 2018 ء میں میرا سیاسی پناہ کا کیس مسترد ہوگیا۔‘‘
اس دوران عارف نے آسٹریا میں بھی قسمت آزمائی کی اور اب ایک بار پھر وکیل کے ذریعے سیاسی پناہ کا کیس داخل کرایا ہوا ہے، ” اگر کیس دوبارہ مسترد ہو گیا تو پھر کچھ اور سوچوں گا شاید جرمنی چلا جاؤں جہاں پہلی بار فنگر پرنٹ دیے تھے۔‘‘
اتنی مشکلات اور دشواریوں کے باوجود عارف واپس پاکستان جانے کو تیار نہیں ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”ابھی امید ہے کہ شاید کچھ ہو جائے گا اگر نہیں بھی ہوا تو کسی بھی قیمت پر واپس پاکستان نہیں جاؤں گا۔ قرضہ لے کر آیا ہوں۔ وہاں روزگار بھی نہیں۔ ابھی ہمارے وزیر اعظم صاحب کا بیان تھا کہ ان کا اپنی تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ ان کا تودو فرد کا کنبہ ہے جبکہ میرے کنبہ میں 10 افراد ہیں میں کیسے گزارا کروں گا؟‘‘
یہ صورتحال صرف پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی ہی نہیں ہے بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور عراق وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اپنے وطن واپسی پر آمادہ نہیں ہیں۔ ایسے ایک شخص عبدالرحمان ہیں۔ وہ گزشتہ آٹھ سالوں سے اٹلی میں ہیں اور اب ان کے رہائشی پرمٹ کی تجدید نہیں ہو رہی کیونکہ ان کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔ وہ پر امید ہیں کہ ان کی نئی درخواست جلد قبول ہوجائے گی۔
واضح رہے گزشتہ سال اٹلی میں 80 ہزار سے زائد سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی گئیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ لوگ انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف امیگریشن اور سیاسی پناہ کے قوانین میں تبدیلیوں کی پرواہ کیے بغیر لوگ اب بھی مسلسل اٹلی آرہے ہیں۔