اسلام آباد / کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر آج دوحہ میں دستخط ہوں گے، طالبان چاہتے ہیں کہ معاہدے پر صدر ٹرمپ یا سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو دستخط کریں تاہم آخری وقت تک یہ واضح نہ ہو سکا کہ امریکا کی جانب سے کون معاہدے پر دستخط کرے گا۔
طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون میں کہا تھا کہ طالبان عالمی معاملات پر قرآن و سنت کی روشنی سمجھوتہ کرنے کیلیے تیارہیں ،جن میں خواتین کے حقوق اور یورپی ملکوں سے تعلقات شامل ہیں۔
افغان امن معاہدے کے بعد دوسرا مرحلہ ممکنہ طور پر مارچ کے اوائل میں شروع ہوگا تاہم اس میں تبدیلی بھی ممکن ہے۔افغان مفاہمتی عمل کا دوسرا مرحلہ ’’انٹرا افغان مذاکرات ‘‘ہیں،اس مرحلے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوں گے،مذاکراتی مرکز کا تعین فریقین مشاورت سے کریں گے۔ ان مذاکراتی مرحلے کوآگے بڑھانے کے لیے ’افغان امن کانفرنس ‘ کا انعقادبھی باہمی مشاورت سے ہوگا۔ افغان امن معاہدے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بھارتی کوششیں ناکام ہو گئیں۔50 ملکوں کے نمائندے اس تقریب میں شریک ہوں گے، اس وقت دو موضوع زیر بحث ہیں۔
لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہ بھارت کا سیکولر چہرہ ہے،انصاف کرنے والے جج کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔صدر ٹرمپ کے دورے کے وقت خیال تھا کہ تجارتی معاہدہ ہو گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے پر اتفاق نہ ہو سکا۔ صدر ٹرمپ کی موجودگی میں پولیس کا سہارا لے کر آ ر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے تھے اور مساجد پر اپنے جھنڈے لگا رہے تھے۔ دنیا یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
مائیک پومپیو نے ایوان نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ گزشتہ چھ دنوں میں افغانستان میں تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے،تاہم ہم افغانستان میں ایران کی مداخلت پر نظر رکھے ہوئے ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی تقریب میں شرکت کیلئے دوحہ میں موجود ہیں۔ افغان امن معاہدہ پاکستان کے لیے اعزاز اور پاکستان کی کوششوں کا اعتراف ہے، افغانستان میں قیام امن کے لیے آج دنیا پاکستان کے کردار کی تعریف کر رہی ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے ایکسپریس ٹریبون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں پاکستان نے ’’سہولت کار ‘‘ کا کردار ادا کیا ہے۔