”زبان صرف رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ہمیں دنیا کو سمجھنے کا طریقہ سکھاتی ہے تاکہ ہم اچھے اوربُرے میں تمیز کر سکیں۔ موجودہ دور کا تمام فلسفہ زبان کی بنیاد پر کھڑا ہے۔” پنجابی زبان کی ترویج و ترقی کے لیے پنجاب میں کئی ادبی تنظیمیں گذشتہ کچھ عرصے سے پوری شدّو مد کے ساتھ اکیس فروری اور شاہ حسین کے میلے پر پنجابی پڑھو اور پنجابی پڑھائو جیسے مطالبے کرتی چلی آرہی ہیں۔ یونیسکو کی طرف سے مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پرپنجابی ادبی تنظیم”دل دریا پاکستان ” کے صدر اورپنجابی زبان کے ادیب و شاعر علی احمد گجراتی نے بھی گجرات میںپنجابی سیوک اکھٹے کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک تشہیری مہم بھی جاری تھی جس کا نعرہ “پنجابی پڑھواور پنجابی پڑھائو ” تھا۔سوشل میڈیا پر جب یہ تشہیر مہم دیکھی تو میرے ہمدم ِ دیرینہ ادیب ،شاعر و صحافی اقبال زرقاش نے علی احمد گجراتی سے ان کی ریلی ، کانفرنس اور مشاعرے کی بابت دریافت کیا تو علی احمد گجراتی کی کرشماتی شخصیت نے انہیں اپنے حصار میں لے لیا ۔ اقبال زرقاش نے راقم سے اس کانفرنس میںشرکت کے حوالے سے بات کی اور مجھے تاکید کی کہ میں ان تقریبات میں شرکت کے حوالے سے ٹائم نکال کر علی احمد گجراتی صاحب سے بات کروں۔
دو دن بعد میں نے علی احمد گجراتی صاحب سے جب فون پر بات کی تو علی احمد نے اپنے اخلاق اور رکھ رکھائو کے انداز سے ایسا متاثر کیا کہ میں نے گجرات جانے کا پختہ ارادہ کر لیا۔پروگرام یوں طے ہوا کہ مردان سے اُردو، فارسی ، پشتو اور پنجابی کے مشہور شاعر گوہر رحمن گہر مردانوی اٹک پہنچے اور وہاں سے اگلے دن اقبال زرقاش کے ہمراہ ٹیکسلا پہنچے جہاںسے ہمارے دیرینہ دوست ملک ممتاز احمد اور انکے بھائی ملک شکیل احمد بھی ماں بولی کی تقریبات میں شرکت کے لیے ہمراہ ہو لیے۔روات سے راقم کولیکر یہ پانچ پنجابی کے سیوک اور متوالے گجرات کی طرف رواں دواں تھے۔گجرات پہنچے تو علی احمد گجراتی اپنے پنجابی سیوکوں کے ہمراہ ہمارا شاندار استقبال کیا۔
پروگرام کا آغاز ریلی سے ہوا۔ریلی سروس موڑ گجرات سے کچہری چوک گجرات تک نکالی گئی ۔اس ریلی کا مقصد پنجاب حکومت سے پنجابی زبان کے سکولوں اور کالجوں میں نفاذ کا مطالبہ تھا۔ ریلی کے دوران شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر اُٹھا رکھے تھے اور پنجابی زبان کے حق میں زبردست نعرے بازی بھی کر رہے تھے۔ریلی کی قیادت مہان پنجابی سیوک پروفیسر ڈاکٹرعامرظہیربھٹی سرپرستِ اعلٰی دل دریا پاکستان اسلام آباد، سیف اللہ باجوہ حافظ آباد، علی احمدگجراتی، عبیداللہ توحیدی وزیرآباد، حکیم احمد نعیم ارشدشکرگڑھ ،اصغرعلی بھٹی نارووال بشیر کمال شکرگڑھ، پروفیسراکبر علی غازی ،شبیر بلو ڈسکہ، محمد حنیف ساقی حافظ آباد، مرزا عزت بیگ گجرات، رومی بیگ گجرات، اسد عباس راز ڈنگہ نے کی۔
سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے بھی اس ریلی میں شرکت کی اورپنجاب سرکار سے پنجابی زبان کے سکولوں اور کالجوں میں لازمی مضمون کے طور پر نفاذ کا مطالبہ کیا گیا۔ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پنجابی زبان دنیا کی سات ہزار زبانوں میں 9ویں بڑی زبان ہے اور پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی کی مادری زبان بھی ہے۔ پنجابی زبان اپنے ہی اکثریتی صوبے کے سکولوں کالجوں میں نہیں پڑھائی جارہی۔ اس حوالے سے پنجاب دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں طالب علم غیر زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کردِیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں شرح خواندگی نہایت کم رہی ہے۔اپنی زبان میں تعلیم ناخواندگی کو ختم کرتی ہے اور عوامی شعور کی بیداری اور ترقی کا سب بنتی ہے۔ اس موقع پر یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ عدالتی حکم کے آ جانے کے باوجود پنجابی زبان کو تعلیمی نظام کا حصہ نہ بنایا جانا عدالت کی توہین کے زْمرے میں بھی آتا ہے۔پنجاب سرکار سے مطالبہ کیا گیا کہ پنجابی زبان کو پنجاب کے سکولوں کالجوں میں لازمی مضمون کے طور پر نافذ کرکے پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کی زبان کو عزت آدر اور تحفظ دیا جائے ۔
ریلی کے اختتام پر ضلع کونسل ہال گجرات میں “کل پنجاب پنجابی کانفرنس کا انعقاد” ہوا۔صدارت مہان پنجابی سیوک ماہرِ تعلیم ماہرِ لسانیات مترجم محقق پروفیسر ڈاکٹر عامر ظہیر بھٹی(نمل یونیورسٹی اسلام آباد) نے فرمائی۔کانفرنس کے مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پنجابی زبان کی تاریخ پنجابی زبان کی وسعت اور اثر پزیری پر خاص طور پر بات کی ۔مادری زبانوں کے تعلیمی نظام کا حصہ بنانے اور بنیادی تعلیم کے مادری زبانوں میں حصول کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کے بارے بھی بات ہوئی۔ مقررین نے اپنی بات چیت میں پنجاب کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اپنی زبان کو اپنے لئے فخر اور عزت سمجھیں۔اپنی زبان میں تخلیقی اور تحقیقی کام کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا گیا۔ اس کانفرنس میں یہ بھی بتایا گیا کہ مادری زبانوں میں تعلیم ہی اقوام کی ترقی کا واحد ذریعہ ہے۔آج تک دنیا کی کسی بھی قوم نے ایک قوم کے طور پر غیر ملکی زبانیں پڑھ کر ترقی نہیں کی۔ غیر زبانوں کا رعب ماننا غلام ذہنوں کی نشانی ہے۔ عامر ظہیر بھٹی صاحب اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ہمیں پنجابی زبان کی خدمت اور تحفظ کیلیے دن رات کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجابی زبان پنجاب کے لوگوں کی پہچان بھی ہے اور پنجاب کی شرح خواندگی بڑھانے کا واحد حل پنجابی زبان کو بنیادی ذریعہ تعلیم بنانے میں ہے۔
آخر میں “کْل پنجابی مشاعرہ مشاعرے”کا اہتمام کیا گیا۔مشاعرے کی صدارت مہان پنجابی شاعر محمدحنیف ساقی حافظ آباد نے فرمائی۔علی احمد گجراتی اور عمران سہیل نے پروگرام کی نقابت کی۔ مہمانانِ خصوصی میں اقبال قمر جہلم ادریس چیمہ اسلام آباد محمد شوکت ڈار گوجرانوالہ ،اعظم علی اعظم چنیوٹ ،سیف اللہ باجوہ حافظ آباد ،اقبال رزقاش اٹک ،بابائے مردان گوہر الرحمن گہر مردانوی مردان ،تنویر طاہر کیانی جہلم، سکندر بیگ جہلم ،شہزاد حسین بھٹی اسلام آباد، مقصود یاور گجرانوالا، آصف جاوید اور شاہ دل شمس نے حافظ آباد سے شمولیت کی۔ دیگر اعزازی شعراء کرام میں مظہر عباس، فخر بلال، پنجابی ڈاکٹرمحمد جاوید جعفری، عمران سہیل، مرزا سیف اللہ، ساجد تنویر، دانش اسد،عباس راز، لیاقت قندیل ،طارق فیاضی ،عصمت اللہ سیکھو، انعام اللہ ناصر، مان امتیاز احمد چٹھہ، فیاض الرحمن، قاسم ،علی منظر محمد، اویس باسل، ناصر حیات صحرائی ،مدثر عباس، گوہر علی، گوہر اظہر، اقبال رانجھا، یاسر ادیب، علی روش ،قیصر محمود گجر، رومی بیگ نے شمولیت کرکے محفل کے رونق میں اضافہ کیا عوام کی ایک بڑی تعداد نے اس مشاعرے میں شرکت کی اور شعراء کو دل کھول کر داد دی۔یہ پروگرام صبح دس سے رات ساڑے سات تک جاری رہالیکن مجال ہے کہ تھکن کا احسا س تک ہوا ہو۔
مادری زبان کے ِاحیاء کے لیے تمام پنجابی ادبی تنظیموں اپنے ذاتی اختلافات کو بھلا کر ایک ہونا ہوگا وگرنہ پنجابی زبان کی عزت و تکریم اور نفاز کا حصول مشکل ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ گجرات میں یورنیورسٹی آف گجرات میں شعبہ پنجابی قائم کرے تاکہ اس سرزمین کے باسیوں کا اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا خواب زندہ تعبیر ہو سکے۔فنڈز کے نام پر چند جلوس نکالنا، ڈھول اور رنگ برنگے رنگ بکھیر کر میڈیا پروجنکشن حاصل کرکے ہم پنجابی نہیں بن سکتے اس کے لیے نیک نیتی سے عملی اقدامات کی ضرورت ہے جس کی جھلک علی احمد گجراتی کی لگن اور محنت میںدیکھائی دیتی ہے۔ دعاگو ہوں کہ علی احمد گجراتی کی تپسیا کامیابی سے ہمکنار ہو۔