صدر ٹرمپ، بھارت سے واپس امریکا جا تے ہوئے نیا پنڈورا بکس بھی کھلا چھوڑ گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل اپنا پہلا بھارت کا دورہ کیا۔ دو روزہ دورہ تاریخی قرار نہیں پاسکا، بلکہ اسے ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک حصہ سمجھا گیا، پانچ ماہ قبل امریکی صدر ٹرمپ نے نریندر مودی کی دعوت پر ٹیکساس فٹ بال سٹیڈیم میں خطاب کیا تھا، حالیہ دورے میں ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم مودی نے احمد آباد کرکٹ سٹیڈیم کی افتتاحی تقریب میں بڑ ے مجمع سے خطاب کرایا۔ صدر ٹرمپ نے مودی کی مداح سرائی و تعریفوں کے پل باندھے اور بھارت کی فلم انڈسٹری سے لے کر گجرات سمیت کئی معاملات پر مودی کوسراہا۔ حیرت انگیز اَمر کہ2005میں سکھوں کی تنظیم”سکھ فار جسٹس“ کی گجرات میں ریاستی مسلم کش فسادات پردائر پٹیشن پر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی امریکا داخلے پر پابندی عاید کرادی تھی لیکن 2014میں سفارتی استثنیٰ کی درخواست پر پابندی سابق صدر بارک اوبامہ نے ختم کی،امریکا میں 40لاکھ کے قریب بھارتی نژاد رہتے ہیں، ٹرمپ کے مطابق ہر چارانڈین میں سے ایک گجرات کا رہنے والاہے، صدر ٹرمپ یہ بھی جانتے ہیں کہ بھارت میں 100کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں، دودرجن ریاستوں میں مختلف مذہبی اکائیاں و اقلیتیں بھارت کی13سو کروڑ آبادی کا حصہ ہیں، لیکن صدر ٹرمپ کیوں خاموش ہوجاتے ہیں کہ بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کا رویہ جابرانہ و بربریت پر مشتمل ہے۔ آخرکیوں ذکر نہیں کرتے کہ مقبوضہ کشمیر،جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں لاکھوں جارح انتہا پسندفوج نہتے انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اورہر آٹھ کشمیری پر ایک جارح بھارتی فوجی مسلط ہے۔
امریکی صدر عوام کے تحفظ و خوشحالی کے ذکر کرتے ہوئے امن کی بات کرتے ہیں، لیکن زمینی حقائق دنیا کے سامنے ہیں کہ جھوٹی رپورٹوں کی بنیاد پر عراق لشکر کشی کے باوجودجب امریکا کو نکلنے کا کہا جاتا ہے تو الٹا حکومت سے جنگی اخراجات کے واجبات ادا کرنے کی شرط عاید کردیتا ہے، افغانستان سے نکلنے کے لئے پاکستان کے کردار کو نظر انداز کرنے والا ٹرمپ اپنی جنوبی ایشیائی پالیسی میں بھارت کو لیڈ کرنے کے پُرکشش مراعات و ترغیبات دیتا ہے،حالیہ دورے میں ایک بار پھر خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کو بڑھاوا دیتے ہوئے ا نڈین ایئرفورس کو 3 بلین ڈالر کے جدید ترین فوجی ہیلی کاپٹروں اور دیگر سازوسامان کی فراہمی کا سودا کرلیتے ہیں۔ٹرمپ کی موجودگی میں نئی دہلی میدان جنگ بنا،لیکن متنازع شہریت قانون پر صدر ٹرمپ نے لب کشائی کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی، مسلمانوں کے گھر، املاک و کاروبار جلائے جاتے رہے، ناپاک قدموں کے ساتھ مساجد کی بے حرمتی کی جاتی رہی لیکن مذہبی آزادی کے خلاف شرمناک اقدامات پر صدر ٹرمپ اُسی طرح خاموش رہے، جس طرح مقبوضہ کشمیر اورفلسطین میں مسلم کشی پر خاموش رہتے ہیں،صدر ٹرمپ نے متعدد بار کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیش کش کی، لیکن دنیا جان چکی ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود پاکستان نے کبھی انکار نہیں کیا، حالاں کہ عالمی برادری جانتی ہے، سنیچری ڈیل پر امریکا نے فلسطین کے حق کو غضب کرنے والوں کا ساتھ دیا، اس سے قبل یروشلم کو اسرائیل کا داراؒلحکومت تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی مخالفت کے باوجود بھی امریکی سفارت خانہ منتقل کیا، ایسے معتصب رویئے کے حامل صدر ٹرمپ سے خیر سگالی کی توقع کیوں کرکی جا سکتی ہے؟۔
صدر ٹرمپ نے افغانستان کی صورتحال میں سخت شکست و پسپائی کی وجہ سے پاکستان کے کردار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”میری انتظامیہ حکومت سنبھالنے کے بعد پاکستان کے ساتھ نہایت مثبت انداز میں کام کر رہی ہے تاکہ پاکستانی سرحدوں میں (مبینہ) سرگرم دہشت گرد تنظیموں اور جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ان کوششوں کی بدولت ہم پاکستان کے ساتھ بڑی پیش رفت کا آغاز ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے مابین تناؤ میں کمی، بڑے پیمانے پر استحکام اور ہم آہنگی پر مبنی مستقبل کی امید ہے“۔ لیکن یہاں ایک بار بھارت کی خوشامد کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ”اس غیرمعمولی خطے کے مسائل حل کرنے اور یہاں امن کو فروغ دینے کی عظیم تر ذمہ داری لیتے ہوئے انڈیا کو ایک بہتر مستقبل کی تشکیل میں اہم قائدانہ کردار ادا کرنا ہے“۔امریکی صدر نے احمد آباد خطاب میں اسلامی دہشت گردی کا دوبارہ الاپ کرتے ہوئے بھارت کواولیّن دفاعی شراکت دار بننے کی دوبارہ ترغیب بھی دی۔
امریکا، خطے میں بھارت کو تھانیدار بنانے کی خواہش رکھتا ہے، اس کے لئے نرم پالیسیاں اور پُرکشش ترغیبات، امریکی ترجیحات میں شامل ہیں، صدر ٹرمپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت کبھی بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرار داد کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینا قبول نہیں کرے گا، بلکہ بھار ت کی لالچ ہے کہ آزاد کشمیر،گلگت بلتستان کو اپنی ملکیت تسلیم کراوانے کے لئے جو ممکن ہوسکتا ہے، کرگذرے۔ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کو210کے قریب ہوچکے ہیں، لیکن عالمی ضمیر،بھارت پر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہا ہے، انتہا پسند حکومت کی ڈھٹائی ہے کہ وہ یورپی یونین کے سخت گیر دائیں بازو کے اراکین کو مقبوضہ کشمیر میں فوجی چھاؤنیاں دیکھا کر جھوٹا پروپیگنڈا کرے، لیکن جب غیر جانبدار مبصرین مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے چاہیں تو انہیں انکار کردیں اور برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیبی ابراہمس و بھارتی اپوزیشن رہنماؤں کو ڈی پورٹ کردیں، صدر ٹرمپ ایک بار پھر امریکی روایات کے مطابق پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے دوہرا معیار اپنایا، کیونکہ انہیں پاکستانی، بھارتی نژاد امریکیوں کی سیاسی حمایت درکار ہے، سنیچری ڈیل میں صدر ٹرمپ کا کردار سب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ صدر ٹرمپ اور امریکی پالیسی سازوں کو پاکستان سے کوئی ہمدردی نہیں، وقتی نام نہاد بہترتعلقات کا ڈرامہ اُس وقت تک ہے، جب تک اس خطے میں امریکی مفادات ہیں، دوحہ میں شکست خوردہ امریکا افواج کے انخلا کی دستاویزپر دستخط، اسی اَمر کی غمازی ہے۔
پاکستان کے ارباب و اختیار کو امریکا پر مکمل اعتماد کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، امریکی صدر کی تین سطری بیان پر اُن کا ترجمان بننے کے بجائے، خطے میں کلیدی کردار ادا کرنے پر برابری کی سطح پر مذاکرات کرنے کے لئے اسٹریجی اپنائے، امریکا سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نام نکلوانے کے لئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اصولی مطالبہ کیا تھا کہ پاکستا ن نے امریکا کے لئے بہت کیا، اب امریکا کی باری ہے کہ وہ کیا کرتا ہے“۔ ہم سب نے دیکھ لیا کہ امریکا نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اور پاکستان آج بھی گرے لسٹ میں ہے، مشرقی سرحدوں پر لائن آف کنٹرول پر بھارتی در اندزیاں جاری ہیں، مقبوضہ کشمیر میں ظلم اوربھارت میں مسلم کشی کی جا رہی ہے۔ ارباب اختیار زمینی حقائق کو مد نظر رکھ اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنائیں کیونکہ یہی پاکستان کے حق میں بہتر ہے۔