الیکشن جیتا تو مغربی کنارے کے مزید علاقے اسرائیل کا حصہ، نیتن یاہو

Netanyahu

Netanyahu

یروشلم (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیل میں انتخابات سے ایک روز قبل نیتن یاہو نے اسرائیلی ریاست میں توسیع سے متعلق ایک نیا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے بقول وہ پھر وزیر اعظم بنے تو دریائے اردن اور مغربی کنارے کے مزید علاقے فوراﹰ اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔

یروشلم سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق کل پیر دو مارچ کو ہونے والے اسرائیلی عام انتخابات سے محض ایک روز قبل موجودہ سربراہ حکومت بینجمن نیتن یاہو نے آج کہا کہ اگر ان کی پارٹی یہ الیکشن جیت گئی اور وہ ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئے، تو چند ہی ہفتوں کے اندر اندر دریائے اردن اور مغربی کنارے کے کئی مزید اور وسیع تر علاقے اسرائیلی ریاست میں ضم کر لیے جائیں گے۔

اسرائیل میں دو مارچ کے عام الیکشن گزشتہ 12 ماہ کے دوران وہاں ہونے والے تیسرے عام انتخابات ہیں۔

گزشتہ دو انتخابات میں نیتن یاہو کی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

اس حوالے سے نیتن یاہو نے کہا کہ اپنی انتخابی کامیابی کی صورت میں وادی اردن کے وسیع تر حصوں کا اسرائیل میں شامل کیا جانا ان کی ‘اولین ترجیح‘ ہو گی۔

اسرائیلی پبلک ریڈیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئیے وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا، ’’ایسا محض چند ہفتوں کے اندر اندر ہو جائے گا۔ مجھے امید ہے، زیادہ سے زیادہ شاید صرف دو ماہ کے اندر اندر۔ اس سلسلے میں نقشے تیار کرنے والی امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ کمیٹی ایک ہفتہ قبل اپنا کام باقاعدہ طور پر شروع بھی کر چکی ہے۔‘‘

انتیس سیاسی پارٹیاں میدان میں

اسرائیل میں دو مارچ کے عام انتخابات میں مجموعی طور پر 29 سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ امید ہے کہ ان تقریباﹰ ڈھائی درجن سیاسی جماعتوں میں سے زیادہ سے زیادہ صرف آٹھ ہی اتنی عوامی تائید حاصل کر سکیں گی کہ انہیں ملکی پارلیمان میں نمائندگی مل سکے۔ ملکی انتخابی قوانین کے مطابق کسی بھی پارٹی کے لیے کنیسٹ کہلانے والی قومی پارلیمان میں نمائندگی حاصل کرنے کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ اسے ملک بھر میں ڈالے گئے کل ووٹوں میں سے کم از کم بھی 3.25 فیصد ووٹ ملے ہوں۔

رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق گزشتہ 12 ماہ کے دوران ہونے والے ان تیسرے ملکی انتخابات میں سب سے بڑا مقابلہ دائیں بازو کے بینجمن نیتن یاہو اور ان کے مرکزیت پسند بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے حریف رہنما بینی گینٹس کے درمیان ہو گا۔ تقریباﹰ یقینی طور پر نئی حکومت بھی ایک مخلوط حکومت ہو گی اور اس کا سربراہ بھی شاید انہی دو سیاستدانوں میں سے ایک ہو گا۔

بینجمن نیتن یاہو اس الیکشن میں اپنی لیکوڈ پارٹی کی قیادت میں بننے والے ایک سیاسی اتحاد کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ کئی ماہرین اس انتخابی عمل کو نیتن یاہو کی سیاسی پالیسیوں سے متعلق ایک عوامی ریفرنڈم کا نام بھی دے رہے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اسرائیلی دفتر استغاثہ کی طرف سے شروع کردہ کارروائی کے نتیجے میں دو مارچ کے الیکشن کے صرف دو ہفتے بعد ہی نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی باقاعدہ عدالتی سماعت بھی شروع ہو جائے گی۔