علالت میں ہونے کے باوجود 25فروری 1948ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے نصف قرن پر محیط مسلمانوں کی جہدمسلسل کوالگ اسلامی ملک کی صورت میں کامیابی ملنے کے بعداہم ترین فیصلہ یہ کیا کہ اہلیان پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔ قائد اعظم نے ڈھاکہ جاکر اہلیان مشرقی پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوے اردو کو قومی زبان کے طورپر نافذ کرنے کے اعلان کے مضمرات و وجوہات سے آگاہ کیا۔قائد اعظم اردو کی اہمیت و افادیت پر غیر متزلزل تھے تاہم ان کی وفات کے بعد ملک میں قومی زبان کو یتیم چھوڑ دیا گیا ۔ جب کہ حقیقت تو یہ تھی ،ہے اور رہے گی کہ اردو ملک کے طول وعرض میں برابربولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے جس کو صوبائی و علاقائی حدود سے بالاتر ہوکر اہلیان پاکستان کے درمیان رابطے کی زبان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔گذشتہ ستر برسوں میں اردو زبان کے ساتھ جو بے رخی و بے اعتنائی برتی گئی ہے۔
اس پر ہر محب وطن کاکلیجہ منہ کو آتاہے۔کیوں کہ دنیاکی تاریخ شاہد ہے کہ جن اقوام نے علمی و فنی اور سیاسی لحاظ سے دنیامیں اپنا چرچا اجاگر کیا ہے اس کی اساس میں دیکھیں تو ان اقوام نے اپنی زبان کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا ہواتھا۔ہر کام ،ہرتحقیق اپنی زبان میں کی ہے جبھی ان کو کامیابی کا خلعت ملا۔
تحریک نفاذ اردو پاکستان گذشتہ پانچ سال سے ملک کے طول و عرض میں ہمہ جہتی صوبائی و علاقائی، سیاسی و مذہبی اختلافات سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کو ایک شناخت پر مجتمع کرنے کی کوشش و سعی میں مصروف عمل ہے۔اس تحریک کے روح رواں اور سرخیل محمد اسلم الوری،عطاء الرحمن چوہان کی شب و روز کی محنت کے نتیجہ میں 25فروری2020ء کو اسلام آبادمیں سید ظہیر گیلانی،راولپنڈی میںراولپنڈی آرٹس کونسل کے اشتراک سے شیریں سید، پشاورکی جامعہ پشاور میں مشتاق بخاری،صدیق اکبر غنی خیل، کراچی کلیم علی خان،کوئٹہ فرید شیخ،گوجرانوالہ عامر شریف،میر پورپروفیسرصغیر احمد آسی، اٹک مونس رضا، منڈی بہائوالدین عبدالعزیز گجر، شعبہ خواتین کراچی کی صدر صبا فضل کی کوشش سے وفاقی اردو یونیورسٹی میںوائس چانسلر وفاقی اردو یونیورسٹی ڈاکٹر عارف زبیر کی شرکت ،شیخوپورہ جلیل شیخوپوری،قصور سید ارشد گیلانی،علی احمد مائدانی نصیرآباد بلوچستان،حنیف کاکڑبلوچستان کے صدور کی کوششوں سے چھوٹے بڑے شہروں میں یوم قومی زبان منایاگیا۔ جس پر ہر محب وطن کا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔یوم نفاذ اردو کی تقریبات میںاردو سے محبت رکھنے والی علمی و ادبی شخصیات ،سیاسی و مذہبی قائدین،سماجی رہنمائوں ،طلبہ تنظیموں کی جانب سے بھرپور شرکت کی گئی۔
مرکزی تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں معروف ادیب جلیل عالی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دستور پاکستان کی روشنی میں قومی زبان کے نفاذ اور مادری زبانوں کی ترویج و ترقی کے لیے فوری ٹھوس اقدام کیے جائیں۔محمد اسلم الوری نے کہا کہ نفاذ اردو کا مسئلہ قانون سازی پر عملداری کا ہے۔عطا الرحمن چوہان نے کہاکہ 25فروری 1948 میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو کو ملک کی قومی زبان قرار دیا۔اردو کو ملک کے آئین اور عدالت عظمی کی جانب سے تحفظ فراہم کیا گیاہے۔جس کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیاہے کہ ملک میں اردو کو دفتری۔قانونی اور تعلیمی زبان کے طورپر نافذ کیا جائے۔سو اتفاق ہے کہ طبقہ اشرافیہ ملک میں قومی زبان کے نفاذ میں روکاوٹ بنے ہوئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت آئین اور قانون کی بالادستی اور 22 کروڑ عوام کی امنگوں پر اترتے ہوئے اردو کو فی الفور نافذالعمل کرائے۔موجودہ دور میں حکومت کی جانب سے دواہم فیصلے ہوئے جن کے مطابق پرائمری جماعت تک اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا اور اسی طرح ملک میں یکساں نظام تعلیم کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔یوم اردو کی مناسبت سے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیر اعظم ملکی بیرون ملک دوروں میں قومی لباس زیب تن کرنے کے ساتھ ساتھ قومی زبان اردو کو ذریعہ اظہار خیال بنائیں۔
تقریب میں شریک حکومتی نمائندہ خواتین کے وفد سینیٹر سیمی ایزدی۔ایم پی اے سیمابیہ طاہر اور طیبہ ابراہیم کی جانب سے یقین دہانی کرائی کہ ملک میں ہرسطح پر اردو زبان کو بہر صورت نفاذ کا حکم نامہ جاری کرانے کی سنجیدہ کوشش کرینگے۔اور قومی و صوبائی اور سینٹ میں آواز حق بلند کرینگے۔تقریبات میں قراداد پیش کی گئی کہ حکومت پاکستان ملک بھر میں تعلیمی و دفتری اور قانونی امور کو قومی زبان میں چلائے،حکومت پرائمری سے اعلیٰ تعلیم تک کی تعلیم کا بھی اردو زبان میں انتظام کرے،حکومت سی ایس ایس سمیت تمام اہم سرکاری ملازمت کے امتحانات کو اردو اور منتخب زبانوں میں پرچہ حل کرنے کی اجازت دے،محمود و ایاز کو ایک صف میں عملاً کھڑا کرنے کے لئے یکساں نظام و نصاب تعلیم فی الفور نافذ کرے۔تناپ کی قرارداد کو تقریبات میں شرکت کرنے والے شرکاء نے متفقہ طورپر منظور کیا۔