راولپنڈی (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا وائرس کی ہمسایہ ملک افغانستان سے منتقلی کے خدشے کے پیش نظر پاکستان نے پاک افغان سرحد کو بھی سات یوم کے لیے مکمل طور پر سیل کردیا ہے۔
پاک افغان سرحد کی بندش سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اورنیٹو سپلائی معطل ہوگئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ حفاظتی انتظامات کے باعث پاک ایران سرحد بھی تاحال بند ہے اور فی الحال اسے بند ہی رکھا جائے گا۔ وفاقی محکمہ داخلہ کے ایک سینیئر افسر، سہیل احمد کے بقول پاک ایران اور پاک افغان سرحد پر اسکریننگ کے دوران اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ کوئی مریض سامنے نہیں آیا ہے ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،”کورونا وائرس سے نمٹنا ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں روز بروز ہونے والے اضافے پر ہمیں بھی بہت تشویش لاحق ہے ۔ اس خطرناک وائرس کی پاکستان منتقلی روکنے کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے ۔ انہی اقدامات کے تسلسل میں پاک ایران سرحد کی بندش کے بعد آج پاک افغان سرحد کو بھی سیل کیا گیا ہے ۔ سرحدوں کی بندش سے ہمیں امید ہے یہاں صورتحال میں خاطر خواہ بہتری آئے گی۔‘‘ سہیل احمد نے بتایا کہ پاک افغان اور پاک ایران سرحدی علاقوں میں ہنگامی حالت نافذ کی گئی ہے اورمحکمہ صحت کے عملے کو کورونا وائرس کی اسکریننگ کے لیے تمام ضروری سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا، ”پاک افغان سرحد کو پہلے مرحلے میں 9 مارچ تک بند رکھا جائے گا ۔ اس حوالے سے پاک افغان دوستی ہسپتال طورخم لنڈی کوتل اور جمرود ، ڈی ایچ کیو ہسپتال پارہ چنار اور دیگر علاقوں میں قائم ہسپتالوں میں خصوصی آئسولیشن وارڈ بھی قائم کردیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر اگر بات کی جائے تو اب تک پاک افغان سرحد پرڈھائی لاکھ سے زائد افراد کی اسکریننگ کی گئی ہے۔ اسی طرح ایران سے متصل علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر مسافروں کی اسکریننگ کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘
ایران میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافے کے باعث وہاں مقیم ہزاروں پاکستانی زائرین بھی واپس پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ پاک ایران سرحدی شہرتفتان میں اب تک دو ہزار سے زائد شیعہ زائرین ایران سے واپس پاکستان واپس آچکے ہیں ۔ ان افراد کو اسکریننگ کے بعد قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے ۔ تفتان میں تعینات صوبائی محکمہ صحت کے ایک سینئر اہلکار داؤد ثاقب کہتے ہیں کہ ایران سے کورونا وائرس کی پاکستان منتقلی روکنے لیے سرحد پرغیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،” دیکھیں اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس سے ہر طرف خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں ۔ ہمارے جو شہری ایران میں پھنسے ہوئے ہیں انہیں واپس لایا جا رہا ہے مگر اولین ترجیح یہ ہے کہ ان کی ہر زاویے سے اسکریننگ کی جائے۔ جو لوگ واپس لائے جا رہے ہیں ان میں اکثریت شیعہ زائرین کی ہے جن کو 14 یوم تک یہاں قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے تاکہ ان کا معائنہ کیا جاتا رہے۔‘‘ داؤد ثاقب کے بقول کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اسپیشل سیکریٹری صحت کی سربراہی میں صوبائی ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا،”اس وقت ایران اور افغانستان سے منسلک ہمارے دس اضلاع میں کورونا وائرس ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ کوئٹہ میں قدرتی حادثات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈٰی ایم اے میں متعلقہ محکموں کا مشترکہ مرکزی کنٹرول روم قائم کردیا گیا ہے جہاں اس صورتحال کا لمحہ بہ لمحہ جائزہ لیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ صوبے کے تمام حساس اضلاع کو تھرمو گنز اور231 ایمبولینسز فراہم کی گئی ہیں ۔ اس سے قبل کورونا وائرس کے مشتبہ کیسز کے سیمپلز حاصل کرکے ٹیسٹنگ کے لیے اسلام آباد بھیجوائے جاتے تھے مگر یہ ٹیسٹنگ کوئٹہ میں بھی شروع کردی گئی ہے۔‘‘
پاک ایران سرحدی علاقوں میں ہنگامی حالت نافذ کی گئی ہے۔
کوئٹہ میں مقیم سینیئر ڈاکٹر اورانفیکشن ڈیزیز کے ماہر، ڈاکٹر نسیم احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ عوام کو اس وائرس سے آگاہی فراہم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا،”دیکھیں کورونا وائرس یقیناً ایک خطرناک وائرس ہے لیکن اگر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو اس مرض سے متاثرہ افراد کے صحتیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں ۔ حکومت اگر اس بیماری کو وبائی شکل اختیار کرنے سے روکنا چاہتی ہے تو ایسے تمام افراد کی اسکریننگ اور نگرانی کی جائے جو کہ ان ممالک سے یہاں واپس آئے ہیں جہاں اس وائرس سے بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہوئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نسیم کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے متاثرہ شخص کی چھینک اور کھانسنے کے ذریعے جراثیم دیگر لوگوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ،”میرے خیال میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کو مناسب فاصلے پر رکھ کر اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے ۔ یہ ایک خوش آئند عمل ہے کہ حکومت نے اب پاک افغان سرحد بھی بند کردی ہے ۔ افغانستان اور ایران کے درمیاں لوگوں کی آمدورفت تاحال جاری ہے۔ اس وائرس کے یہاں منتقلی کے خدشات اس لیے بڑھ گئے تھے کیونکہ ہمسایہ ملک افغانستان میں طبی سہولیات کی کمی کے باعث لوگ اکثر یہاں کا رخ کرتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ چار افراد کی تشخیص ہوئی ہے ۔ ان چاروں متاثرہ افراد نے چند یوم قبل ایران کا سفر کیا تھا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان فضائی رابطے بھی منقطع کر دیے گئے ہیں جبکہ محکمہ ریلوے نے پاک ایران ٹرین سروس بھی غیرمعینہ مدت تک ملتوی کی ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلنے کے ممکنہ خدشے کے پیش نظر بلوچستان حکومت نے 15 مارچ جبکہ حکومت سندھ نے 13 مارچ تک تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔ آج سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مقامی انتظامیہ نے مختلف علاقوں میں کارروائی کے دوران ایسے 27 اسکولوں کی رجسٹریشن معطل کی ہے جہاں پابندی کے باجود درس وتدریس کا سلسلہ جاری تھا۔ حکام کے مطابق ایران سے پاکستان آنے والے ایسے سینکڑوں افراد کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے جنہوں نے حال ہی میں ایران سے پاکستان کا سفر کیا تھا۔
گوادر کے ایک مقامی ہسپتال میں ڈاکٹرز اسکریننگ کر رہے ہیں۔
ادھر دوسری جانب خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس سے حفاظت کے لیے ضلعی ایمرجنسی افسران میں آج ایک سو بیس کٹس تقسیم کیے گئے ہیں ۔ ان کٹس میں گاؤن ، سرجیکل ماسکس اور دیگر اشیاء شامل تھیں ۔
ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ کی ہدایت پر راولپنڈی اوردارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ نے ایران سے آنے والے ایسے 91 پاکستانی شہریوں کی تلاش بھی شروع کردی ہے ، جن کے اب تک ٹیسٹ نہیں کیے گئے ہیں ۔ فروری کے مہینے میں ایران سے واپس پاکستان آنے والے ان افراد میں اکثریت شعیہ زائرین کی بتائی گئی ہے۔
ایف ائی اے نے شیعہ زائرین کی دستیاب معلومات محکمہ داخلہ کو بھجوادی ہیں ان تمام افراد کے اہل خانہ سمیت کورونا ٹیسٹ کیے جائیں گے۔