اسلام نے خواتین کو جتنے حقوق تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے دیئے ہیں۔ اتنے حقوق خواتین کو کسی بھی مذہب و معاشرے نے نہیں دیئے ہیں۔عیسایت اور مغرب کو لے لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عورت جب کسی مرد سے شادی کرلیتی ہے تو اُس پر چاہے جتنا ظلم و زیادتی ہو وہ اُس مرد سے مذہبی طور پر چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی ہے۔ دوسری جانب اگر وہ نن کا لبادہ اڑھ لے تو اسے دنیاوی معاملات سے غرض رکھنا گناہِ کبیرہ ہے گویا وہ شادی بھی نہیں کر سکتی ہے۔جبکہ مسلماں عورت جو بہ حیابھی ہے ۔ اگر اس کے خاوند سے اس کی نہیں نبتی ہے تو وہ طلاق لینے کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔ اگر مرد طلاق نہ دے تو وہ خلع کا دعویٰ کر سکتی ہے۔اسی طرح اگر کوئی عورت مبلغ ہے تو اسے اپنی پسند کی شادی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
اس کی راہ میں والدین بھی مذہبی نقطہِ نظر سے رکاوٹ ڈالنے کے مجاز نہیں ہیں۔ اب ہندو مذہب کی طرف آتے ہیں ہیں ۔ہندوﺅں میں ایک تصور تو یہ تھا کہ عورت مرد سے نہایت کمتر ہے۔عام معنوں میں عورت کو پیر کی جوتی کہا جاتا ہے۔ کہ ایک ٹوٹ جائے تو دوسری خرید لو٬اور اگر اس کا شوہر مرجائے تو اس کو جل مرنے کا حکم ہے۔ورنہ اسکی زندگی کھجل خوار ہوجائے گی۔اس سے کوئی میل ملاپ نہیں رکھے گا۔اس کو خوشبو اور رنگوں کے استعمال کی شدت سے ممانیت ہے۔اس کو بستی سے باہر چھوٹی سی کُٹیا میں رہنے کا حکم ہے۔جبکہ اسلام نے شوہر کے فوت ہوجانے پر مخصوص ایام کے بعدعورت کو شادی کرنے کی مکمل آزادی ہے۔تن ڈھانپنے کے لئے وہ چاہے جیسا لباس پہنے اور جو چاہے کلر استعمال کرے۔ اس پر کوئی پابندی نہیںہے۔مسلمان عورتوں کو جو بہترین حقوق فراہم کئے گئے ہیںدوسرا کوئی مذہب فراہم کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے۔
خواتین کے حقوق کے حوالے سے آج کی خاتون ایک نعرہ مغرب کا ایجاد کردہ لگارہی ہے ”میر اجسم میری مرضی“ یقیناََآپ کے جسم پر آپ کی ہی مرضی چلنی چاہئے مگر ہمارے مذہب نے مرد و عورت کے جسم کے نا جائز استعمال پر سختی سے پا بندی عائد کی ہوئی ہے۔ اس پابندی اور حدود اللہ کو جو توڑے گا وہ قابلِ سزا ٹہرے گا۔میرا جسم میری مرضی کا نعرہ مغرب پر تو اسلئے سجتا ہے کہ وہاں کی عورت دنیاوی نقطہِ نظر سے شادی کے علاوہ چاہے جتنے مردوں کے ساتھ اپنے جسم کا کھلواڑ کر لیں۔اُس معاشرے میں اُنپر کوئی پابندی نہیں ہے ۔کیونکہ اُن کا جسم ہے اُس پر کسی بھی معاشرتی قدغن کی اجازت نہیںہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے مذہب نے ان کو مزید شادی یا ننشپ چھوڑنے پر سخت پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کے مغرب کے معاشروں میں ناجائز بچوں کے پیدا کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ جبکہ مسلم معاشروں میں ایسا ہونا نہایت ہی معیوب ہے۔مگر آج کے یوروپی ذہنیت کے معاشرے میں لوگ اسلامی ذہنیت سے خائف دکھائی دیتے ہیں جبکہ اسلام نے مردو عورت دونوں کے اجسام پرکچھ پابندیاں محض سماج کی بہتری کے نقطہِ نظر سے لگائی ہوئی ہیں ۔جو اللہ کی قائم کردہ حدود کی پابندی نہیں کرے گا اس کو اسلامی معاشرہ کبھی قبول نہیں کرے گا۔
”میری زبان میری مرضی“ کے تحت عمران نیازی نے ۔سیاست میں وہ بد زبانی کا کلچردیا ہے جس کوکوئی معاشرہ کبھی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔بد زبانی کا یہ دور گذشتہ ساڑھے تین سالوں سے جاری ہے۔نیازی کا ہر وزیر و سفیر اپنے مخالفین کے لئے بد زبانی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔خلیل الرحمٰن قمر ایک نہایت ہی تعلیم یافتہ شخص ہیںجنکا شمار ملک کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ جو ایک چینل پر میرا جسم میری مرضی کی ایک بحث میںاپنا نقطہ نظر واضح کر رہے تھے۔کہ محترمہ ماروی سرمد انہیں اپنی بات مکمل کرنے نہیں دے رہی تھیں ۔جب گفتگو کے دوران خلیل الرحمان کے اور ا ینکر کے ان کو اپنی باری پر بولنے کا بار بار کہا گیا تو موصوفہ طیش میں آگئیں اور اس معزز شخص کو پہلے انہوں نے shoutکیااور پھرshut up کہا۔ تو اس پر خلیل الرحمٰن قمرنے بھی کہا you shut up! ۔جبکہ وہ محترمہ طیش میں پھر اپنے الفاظ دہرا رہی تھیں تو خلیل الرحمٰن قمر بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور shut up کے ساتھ ان کی زبان سے بھی سے بھی گالی جیسے الفاظ نکل گئے۔ جو ہم سجھتے ہیں احتیاط کے متقاضی تھے۔مگر افسوس کا مقام ہے کہ وہ خاتون انہیں مسلسل مشتعل شائد جھوٹی شہرت کے حصول کے لئے کر رہی تھیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا پر آنے والے خواتین وحضرت کو زبان کااستعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔آج اس بات کا سب کو اندازہ ہے کی مغرب زدہ ذہنیت،ننگ و نام کے دلدادا اسلامی معاشرت سے بے حد خائف ہےں۔ مسلمانوں کی جگ ہنسائی کے لئے یہ ننگ دھڑنگ معاشرے کے مصنوئی چہرے ہر وہ کچھ کر گذرنے پر تیارہیں جس سے اسلامی شعائر کو معتوب کیا جا سکتا ہے۔اسکی حمایت میں ہر ناچنے گانے ولا سب سے پہلے سامنے آرہا ہے۔اور جی کھول کر مرد کی مذمت میں تو لگا ہوا ہے مگر پہلے بد زبانی کرنے ولی خاتوں کی حمایت میں پیش پیش ملالہ کا باپ بھی اس مذمت میں آگے دکھائی دیا اس کے لئے تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے ”چھاج بولے تو بولے، چھلنی بھی جس میں سو چھید ہیں“ ہم سجھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کو بد زبان بنانے میں سب سے زیادہہمارے موجودہ وزیرِ اعظم عمران احمد نیازی اور ان کے ٹولے کا ہاتھ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کوئی ”کہتا ہے میری زبان میری مرضی “ تو ”کوئی کہتی ہے میرا جسم میری مرضی“ ایک مسلمان خاتو کا فیس بک پر بھیجا گیا پیغام قارئین کی نظر!
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbirahmedkarachi@gmail.com