یوں تو ہر سال خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کا مقصد دنیا میں خواتین کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور خواتین کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا ہے۔لیکن میرے خیال میں یہ دن صرف ایک تہوار تک ہی محدود ہے ‘ہر سال اس دن کو عالمی سطح پر منائے جانے کے با وجود آج بھی پوری دنیا میں خواتین جنسی’ ذہنی’اور جسمانی استحصال کا شکار ہیں ۔ہمارے ملک پاکستان میں بھی پوری دنیا کی طرح خواتین کا عالمی دن ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔پورے ملک میں حکومت ‘سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے بڑی بڑی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔لیکن عملی طور پر خواتین کے حقوق کی پاسداری کیلئے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ‘یہی وجہ ہے کے پاکستان میں خواتین آج بھی عدمِ تحفظ کا شکار ہیں ۔
ایک اسلامی ریاست ہونے کے باوجود پاکستان میں خواتین کے حقوق کی پامالی جاری ہے۔ہیومن رائٹس کی ایک رپوٹ کے مطابق پاکستان میں عورتیں ‘بچے اور بالخصوص بچیاںسب سے زیادہ مظلوم طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔زمانہ جہالت میں خواتین کی حیثیت صرف پائوں کی جوتی کی سی تھی’جسے جب چاہاپہن لیا اور جب اتار کر پھینک دیا اسلام سے پہلے عورتوں کو کم تر اور حقیر سمجھا جاتا تھا ‘ اگر کسی کے گھر بچی کی پیدائش ہو جاتی تو اس کے گھر صف ماتم بچھ جاتی’بچی کی پیدائش کو انتہائی شرمندگی کا سبب سمجھا جاتا تھا ‘ اور بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتااور عورتوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے جاتے کہ جن کو سن کر ایک درد مند انسان کا دل سینے میں رنج و غم سے ٹکرے ٹکرے ہو جاتا ہے ۔ ان مظلوم عورتوں کی بے کسی اور لا چاری کا یہ عالم تھا کہ معا شرے میں ان عورتوں کے نہ تو کوئی حقوق تھے اور نہ ہی ان کو حقوق دلانے کیلئے کوئی قانون موجود تھا ۔ لیکن محسن انسانیت حضرت محمد ۖ کی آمدمبارک کے بعد یہ سب صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی اور اسلام نے عورت کووہ مقام اور مرتبہ عطا کیا کے جس کے سامنے تمام عزّتیں ہیچ نظر آتی ہیں۔
اسلام کی آمد کے بعد عورت کو معاشرے میں جینے کا حق اور با عزت مقام ملا کہیں ماں ‘کہیں بیٹی’کہیں بیوی اور کہیں بہن جیسی عظیم صفات ملیں ‘دین اسلا م نے عورت کی ذات کے متعلق کسی بھی قسم کی حقارت اور ذلت آمیز نظریات کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا ۔اسلام نے عورتوں میں سب سے زیادہ درجہ ماں کو دیا اور اولاد کیلئے اس کی جنت ماں کے قدموں میں رکھ دی ‘ایک دفعہ ایک صحابی نے آپ ۖ سے دریافت کیا کہ یا رسول ۖ سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے تو آپ ۖ نے فرمایا تیری ماں یہاں تک اس صحابی نے تین با ر یہی بات پوچھی اور آپ ۖ نے تین بار یہی فرمایا تیری ماں جب صحابی نے چوتھی بار یہی با ت دریافت کی تو آپۖ نے فرمایا تیرا باپ’ اسی طرح اسلام نے میاں بیوی کی اجتماعی زندگی کی صدارت اگرچہ مرد کو عطا کی اور مردوں کو عورتوں پر حاکم بنا دیا تاکہ نظام خانہ داری میں اگر کوئی مشکل پیش آئے تومرد اپنی خدا داد صلاحیت سے اس مشکل کو حل کر سکے’لیکن جہاں مردوں کے حقوق عورتوں پر واجب کئے وہیں عورتوں کے حقوق بھی مردوں پر لازم قرار دیئے تاکہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق ادا کر کے اپنی زندگی کو شاد مانی اور مسرت سے جنت بنا سکیں۔
موجودہ ترقی یافتہ دور میں یوں تو عورت کو مردوں کے مساوی حقوق دیئے گئے ہیں اور عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا حق دیا گیا ہے۔لیکن حقیت یہ ہے کہ آج بھی ہمارا معاشرہ عہد جاہلیت کی تصویر بنا ہوا ہے ‘آج بھی عورت کو کہیں کاروکاری کر کے مارا جا رہا ہے اور کہیں عزت کے نا م پر قتل کیا جا رہا اور کہیں ونی جیسی رسوما ت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے ۔ ایک رپوٹ کے مطابق پاکستان میں گذشتہ 13 سالوں کے دوران تقریبا ً 87000 خوتین کو قتل و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ کیونکہ ملک پاکستان کو اسلام کے نا م پر حاصل کیا گیا تھا اس لئے پاکستانی معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ بھی ہے ا س مسلم معاشرے میں اس طرح کی صورت حال معاشرے کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اسلامی معاشرے میں خواتین کے ساتھ ایسا سلوک انتہائی دکھ اور شرم کی بات ہے۔
یہا ں پر ایک اور بات قابل افسوس یہ ہے کے ایک مخصوص طبقہ نے روشن خیالی کے نا م پر عورت کو کلبوں ‘اور محفلوں کی زینت بنا کر رکھ دیا ہے ۔میرا جسم میری مرضی کے نام پر نوجوان نسل کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔چند NGO,s عورت کی آزادی کے نام پر ملک میں بے راہ روی پھیلانا چاہتی ہیں،اور یہاں افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیا بھی اپنی ریٹینگ بڑھانے کے چکر میں ان کا بھر پور ساتھ دے رہا ہے۔عورت مارچ کے نام پر عورت کی عزت و ناموس کو رسوا کیا جارہا ‘باریک کپڑے میں ملبوس ہونا قابل فخر اور روشن خیالی سمجھا جا رہا ہے ‘ جبکہ موجودہ مادی دور میں عورت کو اشتہار کی زنیت بنا دیا گیا ہے۔ جسے عرفِ عام میں ماڈلنگ کا نام دیا گیا ہے لیکن حقیقت میں عورت کی آزادی کے نا م پر نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار کیا جا رہاہے’اسلامی نظام حیات میں عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہی ہے ‘لیکن اسلام یہ بھی نہیں کہتا کہ عورت صرف گھر میں ہی نظر بند رہے بلکہ ضرورت کے وقت اسلامی احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے اسے گھر سے باہر نکلنے کا پور ا حق حاصل ہے۔کیونکہ اسلام ہی وہ دین ہے جو جو عورتوں کو مکمل حقوق فراہم کر کے ان کی حفاظت یقینی بناتا ہے۔
آ ج ساری دنیا اس بات کو مانتی ہے کہ جو حقوق اسلام نے عورتوں کو دئیے ہیں وہ حقوق کسی اور مذہب یا معاشرے میں عورتوں کو نہیں دئیے گئے’ضرورت اس امر کی ہے کے ملک پاکستان میں بھی عورتوں کو وہ سب حقوق دئیے جائیں جو حقوق اسلام نے عورت کو دئیے ہیںاور یہ تب ہی ممکن ہو سکے گا جب ملک پاکستا ن میں ایسے اسلامی قوانین بنائے جائیں جن سے حقیقی معنوں میں عورتوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔